سورج کی کرنوں سے اغوا ہونے والا کھارا پانی
آبادی میں گھوم رہا ہے گدلایا بنجارہ پانی
آنگن کی سوندھی بیٹھک پر دھوپ بدن کو سینک رہی ہے
بل کھائی زلفوں پہ لرزاں جھلمل پارہ پارہ پانی
میں نہ کہتا تھا کہ ضبط کی خوش فہمی کچھ ٹھیک نہیں ہے
دیکھ ذرا سا بند کھلا اور پھیل گیا آوارہ پانی
آگ کی لپٹیں ناچ رہی ہیں دجلہ والوں کی بستی میں
پیاس کے مارے چیخ رہا ہے روز فرات کا سارا پانی
صدیوں سے کیوں ٹھہر گیا ہے اس بستی میں ایک سا منظر
سیپی، گھونگے، ریت، چٹانیں، جال لیے مچھوارا، پانی
موڑ سے پہلے پیچھے مڑ کر ایک نظر جب میں نے دیکھا
چاند سے چہرے پر پلکوں سے ڈھلکا دکھ کا مارا پانی
حمد و ثنا رب العزت کی نا ممکن دلشادؔ ہے، گرچہ
سارے پیڑ قلم بن جائیں اور سیاہی سارا پانی