ٹریفک کے ہر اک سگنل سے ہے آگاہ ہونے کا
کسی بھی سمت سے خدشہ نہ ہو گمراہ ہونے کا
کنیزیں خواب گاہ ملکۂ عالی کی خواہش میں
جنوں خواجہ سرا کو بھی بہت ہے شاہ ہونے کا
حقیقت نے طمانچہ جڑ دیا ہے بھیڑ کے اندر
یہ خمیازہ اٹھایا ہے فقط افواہ ہونے کا
میاں تمہید رہنے دے ترے اشعار بولیں گے
کسی کی واہ واہی سے نہیں گمراہ ہونے کا
انا غرقاب ہو کر لوٹ آئی سطح ساحل پر
تماشہ بن گیا فرعون خود اللہ ہونے کا
تہی دامن رہا دلشادؔ جب تنہا تھا، لیکن اب
بہانہ ڈھونڈتا ہے ہر کوئی ہمراہ ہونے کا