جس کے باعث ہو گئے ہیں بے بس و لاچار سے
کاٹنی ہیں اپنی زنجیریں اسی ہتھیار سے
آگہی کی کون سی منزل پہ ٹوٹا ہے یہ خواب
دھند سی چھائی ہوئی ہے اور ہیں بیدار سے
دیو قامت موجیں مجھ سے بر سرِ پیکار ہیں
کھے رہا ہوں اپنی کشتی ہاتھ بھر پتوار سے
دشمنوں کو زیر کر کے کامراں لوٹا مگر
میرے بازو کٹ گئے ہیں دوستوں کے وار سے
میرے زخموں پر نہ جا، کل کی حفاظت کے لیے
میرے بیٹے کھیل اس ٹوٹی ہوئی تلوار سے
پاؤں میں تو بے سند فتوے کی بیڑی ڈال دی
پھر کہا چلتے نہیں کیوں وقت کی رفتار سے
جس کے بیجا شوق سے رسوائیوں کا خوف ہو
گھر میں ایسی چیز نہ لایا کریں بازار سے
دھوپ میں تپتا ہوا آنگن بہت خوش حال تھا
اب تو رشتے جل رہیں ہیں سایۂ دیوار سے
شیخ تیری حق بیانی چاہیے دلشادؔ کو
کیا غرض تیرے مصلّے سے تری دستار سے