آج، کل جیسا رہا، یعنی ہوا کچھ بھی نہیں
پھر انا کے بوجھ کا حاصل تھا کیا، کچھ بھی نہیں
ہچکیوں کے درمیاں مانوس سانسیں فون پر
پوچھتا میں رہ گیا اس نے کہا کچھ بھی نہیں
میرے اندر ڈھیر سارے مسئلوں کا شور ہے
کیا کہا تم نے ابھی میں نے سنا کچھ بھی نہیں
آڑے ترچھے زاویوں سے ڈر نہیں لگتا مجھے
میری نظروں میں ہے نقطے سے بڑا کچھ بھی نہیں
جھنجھلاہٹ گھٹنے ٹیکے بھینچتی ہے ریت کو
صبح روشن ملگجا پن شام کا کچھ بھی نہیں
اس نے کی تحریر اپنی فتح میرے خون سے
میں نے اپنے آنسوؤں سے کیا لکھا، کچھ بھی نہیں
یاد اس کی گرم سانسوں کا مزہ دیتی رہی
چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی اور کیا کچھ بھی نہیں
حاشیے میں آ چکا ہے گوشوارہ سانس کا
جمع کی تقسیم کا حاصل ہے کیا، کچھ بھی نہیں
میں خود اپنے سامنے حیرت زدہ بیٹھا رہا
عکس کو دلشادؔ نظمی کچھ ہوا، کچھ بھی نہیں