بالآخر تھم گئی بپھری ندی آبادیاں لے کر
تب آئے ناخدا اپنی مدد کی کشتیاں لے کر
گلے سوکھے ہوئے آنکھوں میں غم کی بدلیاں لے کر
جھلستے ہیں دعاؤں کے قبیلے عرضیاں لے کر
مرا ایمان ہی میرے قبیلے کا محافظ تھا
مقابل تھی بدی تلواریں، نیزے، برچھیاں لے کر
ہر اک جانب طلب ہر سو وہی فہرست ملتی ہے
کہاں جائے گا آخر باپ اپنی بیٹیاں لے کر
مرے اجداد کو شاید گلے ملنے کی عادت تھی
گریباں اب رفوگر ڈھونڈتا ہے دھجیاں لے کر
کسی شاطر جواری سے ہوا ہے سامنا شاید
وہ کتنا خوش تھا کل تک مجھ سے ساری بازیاں لے کر
مری شہرت پسندی پر انا حاوی رہی ورنہ
مرے نزدیک تھی دلشادؔ دنیا سیڑھیاں لے کر