پتہ نہیں کِسے ہمزاد کرنا چاہتا ہے
غلام جن مجھے آزاد کرنا چاہتا ہے
ہلا بھی لے کبھی زنجیرِ بے حسی اپنی
کبھی ضمیر بھی فریاد کرنا چاہتا ہے
حدِ نگاہ وہی کنکریٹ کا صحرا
خیال، دشت کو آباد کرنا چاہتا ہے
کہیں رکے تو سہی وہ ذرا خموش تو ہو
مرا سکوت بھی ارشاد کرنا چاہتا ہے
بہت سی میل ہے، مس کالیں اور ایس۔ ایم۔ ایس
کسی طرح وہ مجھے یاد کرنا چاہتا ہے
سنا ہے اس کو بہت کوستی ہے تنہائی
وہ ختم ہجر کی میعاد کرنا چاہتا ہے
کسی بھی حال میں تعمیر ہونا ہے اس کو
مرے وجود کو بنیاد کرنا چاہتا ہے
خوشی کسی کو ملے اب اُسے غرض ہی نہیں
بس اپنے آپ کا دل شاد کرنا چاہتا ہے