ضرورت کھردرے جسموں کو اتنا دھار کر دے گی
عَلم سر کو نہتّے ہاتھ کو تلوار کر دے گی
تری مخصوص بیٹھک عام سا دربار کر دے گی
نمائش، اک مہذّب گھر کو بھی بازار کر دے گی
اجالا روکنے والی فصیلیں خوش تو ہیں لیکن
دراروں کی حمایت روشنی کو پار کر دے گی
فنا گہرے سمندر میں ڈبو دے گی جہازوں کو
بقا ٹوٹے ہوئے بازو کو بھی پتوار کر دے گی
ہماری بے حسی لپٹی ہے خوابیدہ لحافوں میں
خود اپنی چیخ ہی شاید ہمیں بیدار کر دے گی
تری رحمت پہا س درجہ یقیں ہے، اے مرے مولا
تری قدرت مرے رو مال کو دستار کر دے گی
ذرا نو کِ قلم سے حاشیہ محفوظ رکھ، ورنہ
لکیر اپنی روانی میں حدیں سب پار کر دے گی
کبھی دہلیز کے باہر نہ کر گھر کے مسائل کو
شکن دلشادؔ چہرے کی تجھے اخبار کر دے گی