چھپے ہوئے نکل پڑے ہیں آج آستین سے
لڑوں میں دشمنوں سے یا لڑوں منافقین سے
رہا کریں وہ مسلکوں کی اختراع پر بضد
جو دُور ہوتے جا رہے ہیں خود اصول دین سے
عجیب رونقیں مرید کر رہی ہیں پیر کو
وصول کر رہا ہے اب خراج عاشقین سے
تجھ ایسے تین پانچ کرنے والے پہ ہو لعنتیں
غرض ہے تیرہ سے نہ واسطہ ہے تیرے تین سے
نہارنے لگے ہیں آئنہ جناب روز و شب
معاملات چل رہے ہیں کیا کسی حسین سے
پناہ ڈھونڈتے ہیں لوگ مصلحت کی آڑ میں
کہاں گئے سوال کرنے والے ناقدین سے
رٹی رٹائی سرقے بازیاں ہی ہاتھ آئیں گی
لگائے بیٹھے آس کیسی آپ مندوبین سے
پھر آج دل کو شادؔ کرنے کا ارادہ کر لیا
غزل نکال لائے آج ہم اُسی زمین سے