غرض نہیں مجھے سیلاب کی روانی سے
ندی چٹان کو کاٹے گی میٹھے پانی سے
نبھا نہ پاؤ گے کردار اپنے حصے کا
مجھے نکال کے دیکھو ذرا کہانی سے
تمہاری نیتِ تفسیر پڑھ رہا ہوں ابھی
تمہارا پیار ہے وحشت زدہ معانی سے
اب ایرے غیرے کو ترجیح تو نہیں دوں گا
مقابلہ بھی کروں گا تو خاندانی سے
کئی طرح کے خداؤں کے آسرے پہ جیو
تباہ کرتے رہو خود کو خوش گمانی سے
ہو میرا رختِ سفر لا ا لہ الا اللہ
روانہ ہونے لگوں جب سرائے فانی سے
صدائے عشق میں دلشادؔ اتنی لذت ہے
کیا نہ شکوۂ غم بھی کسی گیانی سے