دھمکیاں ملتی رہیں گی یونہی دنیا بھر سے
مصلحت جب کبھی سمجھوتہ کرے گی ڈر سے
آپ کیا کچھ ہیں یہ میدان میں ثابت ہو گا
پہلے باہر تو نکل آئیے اپنے گھر سے
ایک محافظ ابھی دستے میں ہوا ہے شامل
ایک منافق ابھی نکلا ہے مرے لشکر سے
زخم کھایا ہوا پنچھی ہوں مگر زندہ ہوں
وقت کی تیز ہوا کاٹ رہا ہوں پَر سے
ہاں وہی شخص بہادر ہے زمانے بھر میں
جو مصلے پہ کھڑا کانپ رہا ہو ڈر سے
یہ وہ دنیا ہے جو تصویر کے دھند لاتے ہے
پھر نیا چہرہ اچک لے گی کسی منظر سے
رات ہنس کر تو کہا تھا کہ میں خوش ہوں لیکن
صبح رخسار ترے کیوں لگے مجھ کو تر سے
کام آواز لگاتا ہے اندھیرے منہ ہی
اٹھنے دیتی نہیں دلشادؔ تھکن بستر سے