سرورِ وصل نے شیریں دہن کیا ہے ابھی
یہ میں نے خواب میں کس سے سخن کیا ہے ابھی
عجیب فکر نے تائب کیا تھا کچھ پہلے
کسی خیال نے توبہ شکن کیا ہے ابھی
ضرور خواب میں آئے گی پہلی شب کی طرح
مرے خیال نے اس کو دلہن کیا ہے ابھی
میں اپنا نام لکھوں کینوس کے کونے میں
برش نے اس کا مکمل بدن کیا ہے ابھی
مرے علاوہ کسی کو نظر نہیں آتی
اُسی نگاہ نے مجھ کو مگن کیا ہے ابھی
کسی کی یاد کا دلشادؔ سنگ ہے شاید
درون خانۂ دل جس نے چھن کیا ہے ابھی