قیمتیں اُونچی تھی تو اندر نہیں جا پائی لڑکی
کانچ کی دیوار تھامے رو پڑی للچائی لڑکی
دور تک ویراں سڑک تھی اور میرا ہاتھ تھامے
بھیا بھیا کہہ رہی تھی خوف سے گھبرائی لڑکی
اب کوئی ہیرو یا آئے گا ویلن اللہ جانے
منتظر ہے اپنا گھونگھٹ کاڑھ کے شرمائی لڑکی
کمرہ نمبر تین سو پندرہ میں تو بوڑھا رکا ہے
کس پرانے شوق نے ہے نصف شب منگوائی لڑکی
دفن کر دیتے تھے پہلے لوگ زندہ بچیوں کو
اب تو قاتل عورتوں نے کوکھ میں دفنائی لڑکی
اس لیے بیٹے کا کمرہ کر دیا تبدیل ماں نے
سامنے کھڑکی میں آ کر لیتی تھی انگڑائی لڑکی
یخ زدہ ہوٹل کے کمرے نے حرارت چھین لی ہے
بجھ گئی ہے جگمگاتے شہر میں صحرائی لڑکی
نارمل تو ہو گئی دلشادؔ لیکن ہر کسی پر
اب یقیں کرتی نہیں ہے پہلا دھوکا کھائی لڑکی