جسم کے اہرام میں مدفون جاں کی خیر ہو
ہے یقیں تابوت میں باہر گماں کی خیر ہو
متن پھر اُس کا رہا ہے حرف کی تحریک کو
بھر رہا ہوں لفظ کا کاسہ، زباں کی خیر ہو
روشنی کے قتل پہ رقصاں ہواؤں کا ہجوم
تیرگیِ دشت میں جگنو میاں کی خیر ہو
بعد میں کرنا ہدف پہ گفتگو لیکن ابھی
تیر اُلٹے پاؤں ہے کھنچتی کماں کی خیر ہو
جسم سے لپٹے ہوئے بارود کا مطلب ہے کچھ
خیر کا جذبہ ہے تو اہلِ جہاں کی خیر ہو
کس کے قدموں میں عقیدت دے گی اب قربانیاں
خیر ہو دلشادؔ نظمی بے زباں کی خیر ہو
٭٭٭
تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید