آشنائی کا سفر لمحوں کے اندر کٹ گیا
درمیاں اک مال گاڑی آئی، منظر کٹ گیا
آخری تاریخ تک پھیلا کلنڈر کٹ گیا
جنوری کی آس میں پھر اک دسمبر کٹ گیا
صحن کا بوڑھا شجر اندر ہی اندر کٹ گیا
دو مکاں اُبھرے تو بٹوارے میں اک گھر کٹ گیا
کاروباری مسکراہٹ اپنے چہرے پر لیے
دکھ منافق شہر کی منڈی میں دن بھر کٹ گیا
کاٹتی رہتی تھی مجھ کو بزدلی شام و سحر
اور جس دن میں لڑا تو خود بہ خود ڈر کٹ گیا
ساحلی چٹان کی صورت میں سالم ہی رہا
جب رواں پانی سے ٹکرایا تو پتھر کٹ گٹ گیا
جب سے تنہائی میسر ہو گئی دلشادؔ تو
آشنا چہروں کے آگے سے میں اکثر کٹ گیا