پہلے ٹھٹکی تھوڑا جھجکی اک ذرا پہلو بدل کر
آشنا لڑکی ملی تھی، اجنبی عورت میں ڈھل کر
خواب سا تھا ایک پیالی چائے کا دورانیہ بس
بھیڑ میں گم ہو گئی تعبیر کیفے سے نکل کر
جان لے لے گا ترے ہاتھوں کا موبائل کسی دن
باولی لڑکی سڑک کو پار تو کر لے سنبھل کر
جاگتی آنکھوں میں میری خواب اس کے آ رہے ہیں
اتفاقاً اس نے مجھ کو صبح دیکھا آنکھیں مل کر
اصلیت پہچانتا ہے آپ کے اندر کا شیشہ
خوش گمانی دیکھتی ہے رات دن چہرہ بدل کر
آستیں میں پلنے والوں سا نظر آتا ہے مجھ کو
دیکھتے رہنا بہت سے دوستوں کا مجھ کو جل کر
دیر سے منڈلا رہی ہے ایک گوریا فضا میں
اک چڑا لٹکا ہوا ہے تار پر بجلی سے جل کر
پھر نئے دن کی ضرورت ہے مگن تیاریوں میں
ہر کوئی نکلے گا گھر سے خواہشوں کی راکھ مل کر
سُن خرد والوں کی باتیں، لیکن اے دلشادؔ نظمی
عشق کے سارے معمے اپنی نادانی سے حل کر