اپنی لا علمی پہ اکثرہا بھرم بولتا ہے
میں نہیں کہتا ہے وہ، ہر جگہ ہم بولتا ہے
احتجاج آج بھی اللہ قسم بولتا ہے
میں اگر چپ بھی رہوں، میرا قلم بولتا ہے
ایک ایک لقمے پہ میں شکر بجا لاتا ہوں
پھر مرے رزق میں مولا کا کرم بولتا ہے
تالیاں پیٹنے والوں کو یہ احساس نہیں
میرے اشعار کے اندر مرا غم بولتا ہے
کوئی سنتا ہی نہ تھا میرے علاوہ اس کی
لوگ اب کہتے ہیں وہ ان دنوں کم بولتا ہے
مار بیٹھا تھا وہ رخسار یقیں پر تھپڑ
اب گماں آس دلاتا ہے بھرم بولتا ہے
چیخ اُٹھا میں اُسے ہجر زدہ دیکھ کے آج
اب تو اُس شخص کا بس دیدۂ نم بولتا ہے
قد ہی گھٹ جاتا ہے دلشادؔ بہت بولنے سے
جانتا ہے جو زیادہ وہی کم بولتا ہے