خدا ہی حالِ دل بے قرار جانتا ہے
کسی کی راہ مرا انتظار جانتا ہے
خرد کھڑی رہے ساحل پہ ہاتھ باندھے ہوئے
جنون عشق تو دریا کا پار جانتا ہے
اسے یہ ضد کہ ملے قافلے کی سالاری
جو راستوں کو نہ دشت و غبار جانتا ہے
منافقوں نے وہیں مورچے بنائے ہیں
عدو ہماری صفوں کی درار جانتا ہے
خدا رسول کے بارے میں جانتا ہی نہ
مرید پیر سخی کا مزار جانتا ہے
ان ہی کو زیب ہے لفظوں سے چونچلے کرنا
مرا مزاج تو لہجے کی مار جانتا ہے
حساب رکھتے ہیں دلشادؔ وہ نوالوں کا
ہمارا رزق تو پروردگار جانتا ہے