دھوپ کی انگلیوں نے فسانے وہی ٹوٹتی پتیوں کے بدن پر لکھے
جیسے بستر سے تصویر تک کا سفر حادثے رات بھر بیوہ پن پر لکھے
وقت کا ہانکا شاید بہت تیز تھا ایک شہزادی باندی بنا لی گئی
پھر شکاری درندوں نے تقسیم کے فیصلے رات بھر گلبدن پر لکھے
سینکڑوں کی صفوں سے نکل تو گیا مڑ کے سرحد سے وہ دیکھتا بھی رہا
اس کے قدموں نے فاقہ زدہ حادثے کس طرح سر زمین وطن پر لکھے
عمر کے ساتھ کچھ خواہشیں تھیں مگر، بند ہیں اب تو ساری امیدوں کے در
کس کی بے نام سی آہٹوں کے پتے ٹوٹے خوابوں نے جلتے نین پر لکھے
وقت نے میرے قدموں پہ کیا سوچ کر، فیصلے کے قلم سے سفر لکھ دیا
اور اتنی بھی مہلت نہ دی کہ کبھی زندگی چند لمحے تھکن پر لکھے
اگلی نسلیں مقدر سمجھ کر انہیں وارثوں کی طرح بانٹ لیں گی کبھی
تجربے جو مِرے عہد نے جا بجا، زندہ لاشوں کے میلے کفن پر لکھے
آگہی کے بیاباں میں دلشادؔ جب اپنی محرومیاں مشعلِ راہ تھیں
تجربے زندگی کے بہ شکل غزل ہم نے اپنی انا کی چبھن پر لکھے