ایسا بھی نہیں، کوئی خریدار نہیں ہے
ہر شے ہے مگر رونق بازار نہیں ہے
یوں ہاتھ ملانے میں کوئی عار نہیں ہے
شب خون کے خدشے سے بھی انکار نہیں ہے
آ، بیٹھ چٹائی پہ ادب سے، کہ یہ کٹیا
اے ظل الٰہی ترا دربار نہیں ہے
دستار کی یہ جنگ پرانی تو ہے لیکن
اب تک کوئی سر قابل دستار نہیں ہے
باقی ہے ضرورت مری کچھ لوگوں کو اب بھی
شاید مرا جینا ابھی بیکار نہیں ہے
حالات نے بت توڑ دیے مری انا کے
پہلے کی طرح دل بھی تو خوددار نہیں ہے
ماحول پہ عائد نہ کیا جرم کسی نے
دلشادؔ ہی تنہا تو سزاوار نہیں ہے