عشق ہمیشہ اپنا گزارا حسبِ ضرورت چاہتا ہے
ہجر زدہ مزدور تو وصل کی شکل میں اُجرت چاہتا ہے
ہونٹوں پر مسکان ہے لیکن گیلی گیلی ہیں آنکھیں
پیار کا پہلا واقعہ آئینے سے حیرت چاہتا ہے
تھکی ہوئی سانسوں کی مدھم ہوتی ہوئی آواز کے ساتھ
کروٹ بدلے خوگر لذت جسم بھی فرصت چاہتا ہے
دونوں کو پروا نہیں اس کی دیکھتی ہیں کتنی آنکھیں
آنکھیں چار کیے رہنے کا جذبہ برکت چاہتا ہے
عرصے سے اس دشت کے اندر مچا نہیں کوئی نیا دھمال
ہو کے اس عالم میں قلندر نئی سی وحشت چاہتا ہے
آخری سانسوں کی ہے وصیت آنے والی نسلوں کو
وقت کسی کو زندہ رکھنے کے لیے قیمت چاہتا ہے
بادل کب برسیں گے اب دلشادؔ اسے معلوم نہیں
تنہا پرندہ سوکھی ڈال سے شاید ہجرت چاہتا ہے