جفائیں نقد، وفا میں اُدھار چل رہا ہے
محبتوں میں یہی کاروبار چل رہا ہے
یہ زندگی کا سفر ہے کہ تعزیوں کا جلوس
جسے بھی دیکھو وہی سوگوار چل رہا ہے
ہزار تلخ کلامی پہ فتح پائی تو پھر
مرے سخن پہ مرا اختیار چل رہا ہے
ہمارے رشتوں میں کھاتہ بہی کا کام نہیں
جو سامنے ہے پس اعتبار چل رہا ہے
سکون و جذب کی منزل ابھی نہیں آئی
ابھی سلوک پہ قول و قرار چل رہا ہے
سفر میں شانہ بہ شانہ مجھے بھی شامل رکھ
یہ میں ہوں یا کوئی خدمت گزار چل رہا ہے
میں اس طرف لب ساحل اُداس ہوں دلشادؔ
جو نا خدا ہے وہ دریا کے پار چل رہا ہے