وعدہ کر کے بچھڑے ہیں لیکن اک نقصان یہ ہو سکتا ہے
جب تک لوٹ کے واپس آئیں بھیڑ میں کوئی کھو سکتا ہے
کس کو نظر آتا ہے اپنے دکھ کے آگے دُوجے کا غم
لوگ بھی اب رونے دیتے ہیں، کوئی کتنا رو سکتا ہے
وصل ہمیشہ آنکھیں چار کیے رہنے کی خواہش میں گُم
ہجر بدن کو آزادی ہے کسی بھی کروٹ سو سکتا ہے
شاید بخشش کا سامان ہو ناک رگڑنے والا منظر
شاید میرا کوئی آنسو میرا دامن دھو سکتا ہے
چلیے نا مل کر چُنتے ہیں رستے کے سب خاروں کو ہم
آپ تو میرے ساتھ ہیں، دشمن کتنے کانٹے بو سکتا ہے
گھر کا بڑا ہونے پر آنکھیں پتھر کرنی پڑ جاتی ہیں
سب کے آنسو پوچھنے والا تنہائی میں رو سکتا ہے
دوستی کی تھی ایک دیہاتی لڑکی سے دلشادؔ نے لیکن
اس کو کب معلوم تھا کوئی اتنا پاگل ہو سکتا ہے