آواز میری بیٹھ گئی ہے پکار کر
میں نے اُسے کہا تھا ذرا انتظار کر
اُف آخری ٹرین بھی مِس کر چکا ہوں میں
اُس نے بھی گہنے رکھ دیے ہوں گے اُتار کر
کہتا ہے مجھ کو دوست تو پھر دوستی نبھا
یا اپنے دشمنوں میں مجھے بھی شمار کر
نقصان تو ہوا ہے ہمارا بہت، مگر
رشتوں کو ہم نے جیت لیا خود کو ہار کر
اُس پار کا سکون مجھے بھی تو چاہئیے
یارا جنوں کی کشتی میں مجھ کو سوار کر
رکنا نہیں تو ڈھونڈ کوئی اور ہمسفر
مجھ پر ہے گر یقیں تو مرا اعتبار کر
الفاظ تو وہی ہیں تجھے چاہئیے ہُنر
کوشش تو کر کبھی مرے لہجے پہ وار کر
دل چاہتا ہے اور بھی دلشادؔ کر مرا
باقی ہے تھوڑا وقت مجھے اور پیار کر