بیچنے میں نظر آئے نہ خریدار میں اب
دل قلندر سا بنا پھرتا ہے بازار میں اب
جنگ اب خود ہمیں لڑنی ہے قبیلے والو
ویسی ہمت کہاں باقی رہی سردار میں اب
وقت نے کیسی ملی دھول ترے چہرے پر
سلوٹیں کیسی ابھر آئیں ہیں دستار میں اب
اس گھڑی ہوش کسی کا بھی کسی کو نہیں ہے
صرف ٹِک ٹِک کیا کرتی رہو دیوار میں اب
تیری مرضی تُو چلائے جا فقط اپنی زباں
زنگ تو لگ بھی چکا ہے تری تلوار میں اب
ایسی حالت میں بھی اک آس کے دورا ہے پر
ہم ہیں اقرار میں شامل نہ ہی انکار میں اب
ہو گئی بات مکمل تو اجازتد یجئے
اور مت ذہن مکدر کریں بیکار میں اب
سب یہی لکھتے ہیں دلشادؔ نیا کیا لکھوں
کیا مضامین نئے لاؤں گا اشعار میں اب