نہ مذہبوں، نہ علاقوں، نہ حکمرانوں نے
زباں کو زخم لگائے ہیں ہم زبانوں نے
زمیں کی گود سلامت رہے گی، لوٹ آنا
گرفت چھوڑی اگر کل کو آسمانوں نے
خدا نے ان کی قضا کنکروں پہ لکھ دی تھی
بہت غرور دکھایا تھا فیل بانوں نے
لہو بہا کے وطن کو وقار بخشا ہے
مہاجروں کا لقب سہ کے خاندانوں نے
ابھی سے قرض درانتی پکڑ کے بیٹھ گیا
ابھی تو فصل بھی کاٹی نہیں کسانوں نے
بس اک زمیں کے احاطے میں اتنی دیواریں
گھرانا بانٹ لیا ہے نئے مکانوں نے
مخالفت پہ تو دلشادؔ کھل کے سب آئے
سراہا مجھ کو ہے پھر بھی دبی زبانوں نے