ہجرتیں اپنے کاندھوں پہ ڈالے ہوئے
ہم بھی لگتے ہیں گھر سے نکالے ہوئے
ایک میلی سی چادر سنبھالے ہوئے
دے کے دستک وہ گزرا، اجالے ہوئے
سرسری طور سے ہم پڑھے جائیں گے
جیسے اردو کے سستے رسالے ہوئے
فاصلہ رکھ کے چلتا رہا دل کے بیچ
ہم سفر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے
اک طوائف بھی شوہر کی خواہش میں ہے
پارسائی کا دامن سنبھالے ہوئے
اب سیاست سپیروں کے قبضے میں ہے
سیکڑوں سانپ ہیں جن کے پالے ہوئے
کون دلشادؔ ہمراہ چلتا مرے
ہم سفر صرف اور صرف چھالے ہوئے