چلتے رہیے دنیا چلتی جاتی ہے
ٹھوکر کھا کر چال سنبھلتی جاتی ہے
دشت ہُو میں ایک سا موسم آوارہ
ایک سی وحشت اب تو کھلتی جاتی ہے
صبح سے بیٹھے کس کا رستہ تکتے ہو
جاؤ بابو شام بھی ڈھلتی جاتی ہے
رہ جائیں گے صرف ہتھیلی میں کنکر
ریت بھری مٹھی سے پھسلتی جاتی ہے
ایک طرف تعمیر مسلسل ہے جاری
ایک طرف سے بستی جلتی جاتی ہے
کھول درِ اسرارِ خموشی آخرِ شب
بوجھل ساعت آنکھیں ملتی جاتی ہے
اونچا ٹیلا اجڑی نیندوں کی تعبیر
ندی سارے خواب نگلتی جاتی ہے
خوف کے سر پہ پھیلی ہوئی ہے چادرِ شب
آہٹ آگے پیچھے چلتی جاتی ہے
حیراں ہوں دلشادؔ میں اپنی دنیا سے
کیسے کسیے رنگ بدلتی جاتی ہے