عرصے تک اس واسطے شاید زندہ تھا
جنگل جنگل وہ خاموش پرندہ تھا
یوں تو باہر بھیڑ لگی تھی چہروں کی
اپنی ذات کا وہ تنہا باشندہ تھا
میں تو اپنی خاطر کب کا قتل ہوا
کوئی تھا جو میرے اندر زندہ تھا
ظلم کی مرضی سونپ دی ظالم ہاتھوں میں
اپنے حق کا میں بھی رائے دہندہ تھا
پشت پہ ماضی سر پہ میرے حال کا بوجھ
لیکن اگلا پاؤں مرا آئندہ تھا
سرد ہوئی آخر جلتی سانسوں کی بین
سانپ پٹاری کے اندر شرمندہ تھا
اس گھر کی ہر چیز پرائی تھی لیکن
دروازے پر میرا نام ہی کندہ تھا
خوش قسمت تھے لوگ جو بازی ہار گئے
کتنی قسطوں میں دلشادؔ تو زندہ تھا