اچھا ہے اس بہانے سیراب ہو گئے ہیں
سوکھے ہوئے گڑھے بھی تالاب ہو گئے ہیں
اک میں ہی آشنا ہوں ساری حکایتوں سے
راوی ترے غلو میں کذّاب ہو گئے ہیں
صحرا نگل رہا ہے تشنہ لبوں کو پھر سے
دجلہ فرات پھر سے خوناب ہو گئے ہیں
مد ہوش لڑ کھڑائے آنکھوں کو ملتے ملتے
اٹھے جو دست نازک محراب ہو گئے ہیں
پہچان تھی نہ کوئی اس شہر میں، اب ان کے،
دلشادؔ، کیسے کیسے القاب ہو گئے ہیں