بارہا جیت ہوئی دل نے بہت ہارا بھی
کچھ تو پابند رہا کچھ ہوا آوارہ بھی
ان کو شکرانے کی توفیق کہاں سے ہو گی
مطمئن کر نہ سکا جن کو بہت سارا بھی
ننھے شانوں پہ رکھے وقت نے اوزار بڑے
ٹافیاں چھوٹ گئیں ہاتھ سے، غبارہ بھی
اک تبسم سا کھلا لب ہلے آنکھیں نہ کھلیں
میں نے ہولے سے ترے گال پہ یوں مارا بھی
زندگی تو نے مکاں کہہ کے دیا ہے خیمہ
ایسے خیمے میں تو رہتا نہیں بنجارا بھی
اک حقیقت ہے یہ منٹو کی کہانی کی طرح
برف کے جسم سے لپٹا رہا انگارہ بھی
ٹوٹ جاؤ گے تو تقسیم کرے گی دنیا
چین لینے نہیں دے گا کبھی بٹوارا بھی
اس کی وسعت سے تو انکار نہیں ہے دلشادؔ
وہ سمندر ہے تو ہو گا، ہے مگر کھارا بھی