شہر گم صم سا ہوا کیوں مرے آ جانے سے
میں نے کیا چیز اٹھا لائی ہے ویرانے سے
حاکم شہر کی دہلیز پہ سجدوں کے نشاں
کیا کوئی رسم نکل آئی ہے بت خانے سے
پھر کوئی ہم میں سے اٹھ کر یہ علم تھامے گا
جنگ یہ ختم نہ ہو گی مرے مر جانے سے
منھ پہ سچ بولنا اچھا نہیں ہوتا اکثر
لوگ کترا کے نکل جاتے ہیں دیوانے سے
ضبط کرنا تجھے با ظرف بنا سکتا ہے
اشک بے مول ہوئے جاتے ہیں بہہ جانے سے
عشق کرتے ہو تو پھر سود و زیاں مت سوچو
یہ سبق سیکھا ہے جلتے ہوئے پروانے سے
وقت مرہم ہے مٹاتا ہے کئی داغ مگر
کچھ نشاں جاتے نہیں زخم کے بھر جانے سے