یہ کیسا امتحان بن کے رہ گئی ہے زندگی
سوالیہ نشان بن کے رہ گئی ہے زندگی
سماعتوں سے چھن گئی نوائے حرف و لفظ کیوں
یا خود ہی بے زبان بن کے رہ گئی ہے زندگی
کسی پہ تنگ کر دیا ہے وقت نے زمین کو
کسی پہ آسمان بن کے رہ گئی ہے زندگی
گزر گئی طویل عمر، گھر کا خواب دیکھتے
اک عمر سے مکان بن کے رہ گئی ہے زندگی
چھپا ہوا ہدف ہے آتی جاتی سانس میں کہیں
کھنچی ہوئی کمان بن کے رہ گئی ہے زندگی
دیار غیر میں ہے جسم، رزق کی تلاش میں
وطن میں خاندان بن کے رہ گئی ہے زندگی
میں آب آب ہو رہا ہوں قیمتوں کو دیکھ کر
بہت بڑی دکان بن کے رہ گئی ہے زندگی
خوشی نے اس طرف خوشی سے رخ نہیں کیا کبھی
دکھوں کی میزبان بن کے رہ گئی ہے زندگی
سکونِ دل نہ شادمانیاں ہیں اور اس طرف
مثال اطمینان بن کے رہ گئی ہے زندگی