سید منصور عاقل کا شمار پاکستان کے اُن ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی تخلیقی کامرانیوںکا ایک عالم معترف ہے ۔اُن کی ادارت میں اسلام آباد سے شائع ہونے والا سہ ماہی ادبی مجلہ ’’الاقربا‘‘قارئینِ ادب میں بے حد مقبول ہے ۔گزشتہ دو عشروں میں الاقربا نے فروغ ِ علم و ادب کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخِ ادب کے اوراق میں آب ِ زر سے لکھی جائیں گی۔سید منصور عاقل کی چودہ کتب اُردو میں اور سات انگریزی میں شائع ہو چکی ہیں۔الاقربا فائونڈیشن اسلام آباد کے زیر اہتمام ان کی نئی تصنیف’’متاعِ فکر و نظر ‘‘جو سال ۲۰۱۴کے وسط میں شائع ہوئی ہے بہت اہمیت کی حامل ہے ۔اس معرکہ آرا کتاب میں سید منصور عاقل کے لکھے ہوئے ادبی مجلات اور علمی و ادبی کتب پر تبصرے یک جا کر دئیے گئے ہیں۔متاعِ فکر و نظر میں نوے کتابوں پر تبصرے اور چھے کتابوں کی تقاریظ شامل ہیں۔ سید منصور عاقل نے ماضی کے افکار ،حال کے تجزیات اور مستقبل کے تصورات کی اساس پر پاکستانی ادب کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کا قصرِ عالی شان تعمیر کرنے کا جو خواب دیکھا ہے وہ ان کی تحریر کے ایک ایک لفظ سے عیاں ہے۔ایک زیرک نقاد ،محقق، ادیب ،دانش ور اور حریت ِ فکر کے مجاہد کی حیثیت سے سید منصور عاقل نے آئینہء ایام میں آنے والے دور میں تخلیقِ ادب کے معائر کی جو لفظی مرقع نگاری کی ہے ،وہ خوب سے خوب تر کی جانب عازمِ سفر رہنے کے سلسلے میں ایک واضح لائحہء عمل پیش کرتی ہے ۔ایک مستعد اور فعال تخلیق کار تنقید کی روشنی میں اپنے مستقبل کے ادبی سفر اور منزلِ مقصود کا تعین کرتا ہے ۔سید منصور عاقل کے لکھے ہوئے کتابوں پر یہ ادبی تبصرے جس مثبت انداز میں قاری اور تخلیق کار کو فکر پرور اور بصیرت افروز رہنمائی سے متمتع کرتے ہیں وہ فروغ ِادب کے لیے ایک بہت اچھا شگون ہے۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جب زندگی کی اقدار ِ عالیہ کو شدید خطرات لاحق ہیں اور مادی دور کی قباحتوں نے تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں ،ایسی کتب کی اشاعت نہ صرف جمود کے خاتمے کی جانب اہم پیش رفت ممکن ہے بل کہ اس کے اعجاز سے قارئینِ ادب کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔
متاعِ فکر و نظر کی اشاعت سے اُردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہو گا اور قارئینِ ادب کو افکارِتازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔سید منصور عاقل کے تبصرے کتاب ، مصنف اور اُس کے اسلوب کے بارے میںتمام حقائق کی گرہ کشائی کرتے ہیں۔سید منصور عاقل نے اپنی تبصرہ نگاری کے ذریعے تخلیقِ ادب میں گہری دلچسپی اور انہماک پر زور دیا ہے ۔اُن کا خیال ہے کہ فکری ارتقا کا تقاضا یہ ہے کہ جہد ِمسلسل کو زادِ راہ بنایاجائے ۔یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ سعی ء پیہم ہی زندگی کی علامت ہے ۔اسی کے اعجاز سے ذہن و ذکاوت ،فہم و فراست اور فکر و نظر کے ارتقا کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔تخلیق کار کی شخصیت ،کردار اور اسلوب میں نکھار کے لیے سخت محنت نا گزیر ہے ۔ایک بلند پایہ مصنف کی مثال ایک کوہ پیما کی ہے جو ایک سر بہ فلک پہاڑ کی چوٹی کو سر کرنے کا عزم کرتا ہے ۔اُسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہے کہ اس جد و جہد میں اُس کی جان بھی جا سکتی ہے لیکن وہ اپنی دُھن میں مگن اپنی جد و جہد میں منہمک رہتا ہے ۔ اُسے اس بات کا پختہ یقین ہوتا ہے کہ آنے والی نسلیں یقیناً فروغِ گُلشن اور صوت ِ ہزار کا موسم دیکھیں گی ۔سید منصور عاقل نے ان تمام مصنفین کی محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے جنھوں نے اپنے اشہبِ قلم کی جو لانیوں سے قارئینِ ادب قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل کا منظر دکھایا۔ان کی تخلیقی فعالیت سے احساس و ادراک اور تہذیبی و ثقافتی ارتقا کے امکانات روشن تر ہو گئے۔ کتاب ’’متاعِ فکرو نظر ‘‘ کی اشاعت سے قاری کے ذوق سلیم کی تسکین ہوئی ہے اور اس کے اعجاز سے ذوقِ مطالعہ کو پروان چڑھانے میں مدد ملے گی ۔
’’متاع، فکر و نظر ‘‘کا پیش لفظ(افتتاحیہ) سید منصور عاقل نے تحریر کیا ہے ۔’’گزارش ِ احوال واقعی‘‘کے عنوان سے مصنف اور کتاب کے بارے میں پروفیسر سحر انصاری کی اہم رائے بھی کتاب کی زینت بنی ہے ۔ چار سو آٹھ صفحات پر مشتمل یہ کتاب کمپیوٹر کمپوزنگ میں اعلا معیار کے سفید کاغذپر نہایت اہتمام کے ساتھ شائع ہوئی ہے ۔اس کی قیمت چھے سو روپے ہے۔کتاب حاصل کرنے کا پتا درجِ ذیل ہے :
مکتبہ الاقربا فائونڈیشن102سٹریٹ 110سیکٹر جی11/3۔اسلام آباد