لوگ ہلالِ شام سے بڑھ کر پَل میں ماہِ تمام ہوئے
ہم ہر بُرج میں گھٹتے بڑھتے صبح تلک گُم نام ہوئے
اُن لوگوں کی بات کرو جوعشق میں خوش انجام ہوئے
نجد میں قیس ،یہاں پر انشاؔ،خوار ہوئے بد نام ہوئے
کِس کا چمکتا چہرہ لائیں کِس سُورج سے مانگیں دُھوپ
گھو ر اندھیرا چھا جاتاہے ،خلوتِ دِل ہے شام ہوئے
ایک سے ایک جنوں کا مارا اِس بستی میں رہتاہے
ایک ہمیں ہُشیار تھے یارو،ایک ہمیںبد نام ہوئے
شوق کی آگ نفس کی گرمی گھٹتے گھٹتے سرد نہ ہو
چاہ کی راہ دِکھا کر تُم تو وقفِ دریچہ و بام ہوئے
اُن سے بہار و باغ کی باتیں کر کے جی کو دُکھانا کیا
جِن کو ایک زمانہ گُزرا کُنجِ قفس میں رام ہوئے !
انشاؔ صاحب پو پُھٹٹی ہے تارے ڈُوبے صبح ہوئی
بات تمھاری مان کے ہم تو شب بھر بے آرام ہوئے
( ابن انشا)