حیدرآباد سندھ،شمارہ ۸۱۔۸۲ جنوری تا جون ۲۰۱۴
پاکستان سے شائع ہونے والے ادبی مجلات نے فروغ ِ علم و ادب کی ایک مضبوط ،مستحکم اور لائقِ صد رشک وتحسین درخشاں روایت قائم کی ہے ۔اس عظیم الشان علمی و ادبی روایت کے بنیاد گزاروں میں ساقی ،ادبی دنیا، مخزن،کاروان،افکار،فنون ،اوراق،قند ،عروج ،لیل و نہار ،قندیل ،اقدار اور مونتاج کے نام قابلِ ذکر ہیں۔اُفقِ ادب پر ان مجلات کی ضوفشانی اب ماضی کا حصہ بن چُکی ہے ۔اب وطنِ عزیز سے شائع ہونے والے ادبی مجلات کی تعداد ماضی کی نسبت قدرے کم ہے ۔ قارئینِ ادب کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ،ان کٹھن حالات میں جو مجلات اپنی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ان میں ’’انشا‘‘کو اہم مقام حاصل ہے ۔ یہ مجلہ ممتازادیب صفدر علی خاں کی ادارت میں پاکستان اور کینیڈا سے بہ یک وقت شائع ہوتا ہے ۔اس مجلے کو پوری دنیا میں نہایت توجہ اور دلچسپی کے ساتھ پڑھا جاتاہے۔دنیا کے بیش تر ممالک میں اس کے نمائندگان مو جود ہیں جو عصری آگہی پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ۔مجلے کے قارئین اور قلمی معاونین کی توجہ سے اس کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے لبریز ہے ۔ آئیے سبدِ گُل چیں پر ایک نظر ڈالیں اور اس کی بو قلمونی کا اندازہ لگائیں ۔ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل حالیہ شمارے میں ادارتی کلمات کے بعد حمد ،نعت ،مضامین ، تراجم ،خصوصی مطالعہ، کتابوں پر تبصرے ،انٹرویو،نظمیں، افسانے ،افسانچے ،غزلیں ،انشائیہ ،ظریفانہ شاعری ،رپورتاژ،کتابوں پر تبصرے اورقارئین کے خطوط شامل ہیں ۔
’’ظلم پھر ظلم ہے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘کے عنوان سے مدیر نے اپنے ادارتی کلمات میں معاشرتی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور لرزہ خیز اعصاب شکن مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔سماجی زندگی میں عدم تحفظ اور غیر یقینی کی کیفیت نے زندگی کی تمام رُتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں ۔فاضل مدیر نے نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ اس صورتِ حال پر اپنی تشویش کااظہار کیا ہے اور اربابِ اختیار کی توجہ ا س جانب مبذول کرائی ہے ۔اس شمارے میںڈاکٹر سید معصوم رضا،احمد صغیر صدیقی ،نور الہدیٰ سید ،شاکر کنڈان ،جاوید خورشید ،غالب عرفان ،نجیب عمر اور جاوید مسرت کے مضامین شامل ہیں۔خصوصی مطالعہ میں پروفیسر نظیر صدیقی(مرحوم )کا لکھا ہوا ممتاز ادیب محبوب خزاں (مرحوم)کا خاکہ شامل ہے ۔اگرچہ یہ خاکہ شمارہ ۹ میں پہلے ہی شائع ہو چُکا ہے لیکن یہ سدا بہار اور اسلوب کے اعتبار سے بے مثال خاکہ ہر دور میں اپنی شگفتگی سے قلب و نظر کو معطر کرتا رہے گا ۔سعید احمد سلطان نے رضا علی عابدی کا انٹرویو پیش کیا ہے اور ضیا ندیم نے حامد علی سید سے ملاقات کا احوال زیبِ قرطاس کیا ہے ۔حصہ نظم میں سید شاہ عالم زمرد ،شفیق احمد شفیق،شہزاد نیر ،مظہر بخاری ،آصف جمالی اور جمال احمد انجم کی نظمیں شامل اشاعت ہیں ۔غزلیات کے حصے میں مختار اجمیری ، جان کاشمیری،محیط اسماعیل ،ناصر زیدی،سید انور جاوید ہاشمی،شاداب صدیقی ،کرامت بخاری ،رئیس باغی ،عبدالشکور آسی ،آسناتھ کنول ،عزیز وارثی ،حجاب عباسی ،ڈاکٹر مظہر حامد ،جمال احمد انجم ،سبیلا انعام صدیقی،یوسف صحرائی،تسلیم عارض اور صفدر علی خان کی غزلیں شائع کی گئی ہیں ۔تسنیم کوثر کاافسانہ ’’شارٹ کٹ ‘‘عمدہ کاوش ہے ۔ابن عاصی کے دو افسانچے بھی شائع ہوئے ہیں۔فخر الدین کیفی کا انشائیہ ’’انمول‘‘پُر لطف ہے ۔ز ندگی کی ناہمواریوںکے ہمدردانہ شعور کی آئینہ دار ظریفانہ شاعری میںخالد عرفان ،زیب النسا زیبی اور صفدر علی خان کی شاعری نے محفل کو کشت زعفران بنا دیا ہے ۔ مجلے میں شامل رپورتاژ کا حصہ نہایت اہم ہے ۔اس حصے میں شکاگو میں منعقد ہونے والی ایک یادگار ادبی نشست کا احوال بیان کیا گیا ہے ۔اس ادبی نشست میں ممتاز ادیب اور نامور سفر نامہ نگار قمر علی عباسی کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے ۔اس شمارے میں شفیق احمد شفیق کے لکھے ہوئے درجِ ذیل کتابوں پر تبصرے شامل ہیں :
شش ماہی علوم اسلامیہ (سیرت نمبر ) :مدیر اعلا پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ،آپ کے لیے :فضا اعظمی کی غزلیہ شاعری ،نیااردو افسانہ : مرتب، شاعرعلی شاعر ،ہمارا معاشرہ اور اسلام : پروفیسر ہارون الر شید ،
مکاتیب میں عبدالقیوم ،شاہ عالم زمرد ،کرامت بخاری ،نجیب عمر ،غالب عرفان اور نورالہدیٰ سید کے فکر پرور مراسلے فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتے ہیں ۔
مجموعی طور پر مجلہ انشا قابل مطالعہ ادبی مواد سے لبریز ہے ۔اس مجلے کی اشاعت میں مجلس ادارت نے جس محنت لگن اور مستعدی کا ثبوت دیا ہے وہ لائقِ تحسین ہے۔