سیدہ شاہین زیدی کا علم و ادب سے گہرا تعلق ہے ۔ سیدہ شاہین زیدی کا شمار پاکستان کی اُن ممتاز خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے اُردو زبان و ادب کے فروغ کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا ہے ۔ سیدہ شاہین زیدی کا تعلق پاکستان کے ایک نامور علمی و ادبی خاندان سے ہے ۔اُن کے ڈاکٹر سید نظیر حسنین زیدی عالمی شہرت کے حامل پاکستانی دانش ور اور مدبر تھے ۔اُن کے شوہر سید مسعودا لحسنین زیدی نے بھی زندگی بھر فروغِ علم و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔اُن کی وفات کے بعد سیدہ شاہین زیدی لاہور سے شائع ہونے والے مقبول ادبی مجلے ’’سہ ماہی نوادر ‘‘کی مدیرہ کی حیثیت سے ۲۰۰۱ سے اہم خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ ہر سال جب اپریل کا مہینا آتا ہے تو ڈاکٹر سید نظیر حسنین زیدی کی برسی کے موقع پر’’ سہ ماہی نوادر ‘‘ کی خاص اشاعت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔یہ مجلہ ڈاکٹر سید نظیر حسنین زیدی کی یاد میں گزشتہ تین عشروں سے با قاعدگی سے شائع ہو رہا ہے ۔ہر قسم کی گروہ بندی اور تعصب سے دُور رہتے ہوئے اس رجحان ساز ادبی مجلے نے حریت ِ فکر و عمل کا علم بلند رکھا ہے اور لفظ کی حرمت کو ہمیشہ مقدم سمجھا ہے ۔علمی و ادبی مجلے ’’ سہ ماہی نوادر‘‘ کا اجرا سید مسعود الحسنین زیدی نے اپنے والد ڈاکٹر سید نظیر حسنین زیدی کی یاد میں کیا تھا ۔سیدہ شاہین زیدی اب مجلس یادگار ڈاکٹر سید نظیر حسنین زیدی کی روح رواں ہیں۔ وہ ایک اعلا تعلیم یافتہ خاتون ہیں ۔جامعہ پنجاب سے اردو زبان و ادب میں ایم۔اے کرنے کے بعد انھوں نے اپنا زیادہ وقت عالمی کلاسیک ،اردو اور پاکستانی زبانوں کے کلاسیکی ادب کا انھوں نے وسیع مطالعہ کر رکھا ہے ۔عالمی ادب کے اہم فن پاروں کے تراجم میں بھی وہ گہری دلچسپی لیتی ہیں ۔جدید تنقید اور لسانیات کے اہم موضوعات پر بھی اُنھیں کامل دسترس حاصل ہے سیدہ شاہی
۔تخلیقِ ادب اور صحافت سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے ۔انھوں نے کچھ عرصہ روزنامہ ’’شہاب‘‘میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ان کا کالم ’’چلمن کی اوٹ سے‘‘قارئینِ ادب بالخصوص خواتین میں بے حد مقبول ہوا ۔اپنی تحریروں میں انھوں نے معاشرتی زندگی کے انتشار ،بے اعتدالیوں اور خواتین کے ساتھ روار کھی جانے والی شقاوت آمیز ناانصافیوں کے بارے میں کُھل کر لکھا اور تیشہء حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی کوشش کی ۔اُن کے اسلوب کو باذوق قارئین نے پسند کیا اور علمی و ادبی حلقوں نے بھی ان کی پذیرائی کی ۔ایام گزشتہ کی تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی رکھنے والے محققین جانتے ہیں کہ سیدہ شاہین زیدی نے روزنامہ’’ شہاب ‘‘کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ادبی مجلے ماہ نامہ ’’شہر زاد‘‘ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ادبی مجلے ’’شہر زاد‘‘میں وہ شاعری کے گوشے کی ترتیب پر مامور تھیں ۔قارئین ادب میں’’شہر زاد‘‘ کے شاعری کے گوشے کو سب سے زیادہ پذیرائی ملی جو سیدہ شاہین زیدی کی محنت ،جوہر شناسی اور ذوق سلیم کا ثبوت ہے ۔وہ معاشرتی زندگی میں مساوات اور عدل و انصاف کی آرزو مند ہیں ۔اُن کی بلند اخلاقی ،وضع داری ،ملنساری ،علم دوستی اور ادب پروری کا قصر ِ عالی شان عدل و انصاف کے زریں اصولوں کی اساس پر استوار ہے ۔انھیں اس بات کا قلق ہے کہ ساری دنیا میں تغیر و تبدل کا سلسلہ پیہم جاری ہے لیکن غم زدوں کا حال تو جوں کا توں ہے ۔سیدہ شاہین زیدی میں ایک تخلیق کار کی انا بھی ہے اور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے جدو جہد کرنے کا عزم بھی ہے ۔وہ ایک ایسی ادیبہ ہیں جو وطنِ عزیز میںعوام بالخصوص خواتین میں مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے کے لیے مقدور بھر جدو جہد میں مصروف ہیں۔ان کی تمام توانائیاں اِس عالمِ آب و گِل میں فروغ ِ گُلشن و صوت ِ ہزار کاموسم دیکھنے کی تمنا میں صرف ہو رہی ہیں۔بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک زیرک ،فعال اور محب وطن ادیبہ کی حیثیت سے انھوں نے اپنی خودی کو بنی نوع انسان کی عظمت و توقیر اور اذہان کی تطہیر و تنویر کے لیے وقف کر رکھا ہے ۔ پاکستانی ادبیات میں تانیثیت کے حوالے سے سیدہ شاہین زیدی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ان کی موثر اور فعال سر پرستی میں یہ مجلس فروغِ علم و ادب کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہے دنیا بھر میں اُنھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ان کے تین ناول (پھر وہی دن کا اُجالا ،گھروندا ،نُور بانو ) اور ایک نا ولٹ (زنجیرِ جنون ) زیرِ طبع ہیں ۔سید ہ شاہین زیدی کی اب تک چار وقیع تصانیف شائع ہو چُکی ہیں جِن کی تفصیل درج ذیل ہے :
جُدا منزلیں جُدا راہیں (ناول )جولائی ۲۰۱۰،سفرِ حج (سفر نامہ )مئی ۲۰۱۳،کرم کی آس (افسانے )جولائی ۲۰۱۳ ،اس کے علاوہ حال ہی میں ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا ہے ’’ابھی موسم نہیں بدلا ‘‘
سیدہ شاہین زیدی کا نیا شعری مجموعہ ’’ابھی موسم نہیں بدلاجو جنوری ۲۰۱۴میں شائع ہوا ہے ان کے فکری و فنی ارتقا کا مظہر ہے ۔اس شعری مجموعے کو علم و عرفان پبلشرز،لاہور نے نہایت اہتمام سے شائع کیا ہے ۔اس نئے شعری مجموعے میں اکیس غزلیں اور باون نظمیں شامل ہیں۔ حصہ نظم میں قطعات ، پا بند اور نثری نظمیں شامل ہیں ۔ اپنے ذوقِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے نثری نظم پر انھوں نے زیادہ توجہ دی ہے۔ سیدہ شاہین زیدی نے اس شعری مجموعے’’ابھی موسم نہیں بدلا‘‘ کا انتساب اپنے شوہر سید مسعود الحسنین زیدی (مرحوم)اور ہو نہار فرزند تابش مسعود کے نام کیا ہے ۔ اپنے شوہر کی وفات پر اپنے جذبات حزیں کا اظہار کرتے ہوئے سیدہ شاہین زیدی نے لکھا ہے :
تُم تھے تو کائنات میں خوشبو تھی رنگ تھے
اہل ِ جہاں بھی دیکھ کے دونوں کو دنگ تھے
مسعود!آج تک یہ سمجھ میں نہ آ سکا
تم میرا دِل تھے یا مِرے دِل کی اُمنگ تھے
شاعرہ نے اپنے بیٹے تابش مسعود کے لیے بھی قلبی جذبات سے لبریز شاعری کی ہے ۔ اپنی اولاد سے محبت زندگی کی ایک اہم اور ہمہ گیر قدر ہے۔شاعرہ نے اس قدر کو اس خلوص کے ساتھ پیرایہء اظہار عطا کیا ہے کہ اجتماعی زندگی پر اِس کے دُور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔مامتا کے پر خلوص جذبات کی مظہر یہ قدر معاشرتی زندگی کو ایک دل کش آ ہنگ عطا کرنے کا وسیلہ ثابت ہو سکتی ہے ۔اپنے احساس ، شعور ،جذبات اور خیالات کو قارئینِ ادب تک پہنچاتے وقت شاعرہ نے حرفِ صداقت لکھنا اپنا مطمحِ نظر بنایا ہے ۔ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے شاعرہ نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ قارئینِ ادب تخلیقی عمل کے پسِ پردہ کارفرما عوامل کا ادراک کر کے ان خیالات کو دل کی دھڑکنوں سے ہم آ ہنگ کر سکیں ۔خاص طور پر حصہ نظم میں شامل تین نظمیں پڑھ کر تو گِریہ ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے ۔ ایک غم زدہ بیوہ ما ں کی مامتا کے جذبات کا تعلق احساس اور ادراک سے ہے ۔ان کی تفہیم کے لیے بڑی دردمندی اور خلوص کی ضرورت ہے ۔اس کے بغیر قاری اس در د کو سمجھنے سے قاصر ہے جو سمے کے سم کے ثمرکی صورت میں شاعرہ کے
گ و پے میں سما گیاہے ۔ان میں سے ایک نثری نظم ،ایک دعا اور ایک پا بند نظم گہری معنویت کی حامل ہیں ۔
تابش تِرے لبوں کے تبسم پہ میں نثار
یہ روشنی ہے میرے لیے مطلعِ بہار
تشنہ دہن ہوں آج میں بادل کی آس میں
ہے میری بھاگ دوڑ ترے کل کی آس میں
اپنے اس شعری مجموعے کا پیش لفظ بھی سیدہ شاہین زیدی نے خود تحریر کیا ہے جس میں انھوں نے اپنے فکر و فن کے حوالے سے متعدد چشم کشا صداقتوں پر روشنی ڈالی ہے ۔اس شعری مجموعے کے آغاز میں شاعرہ کے اسلوب کے بارے میں دو اہم مضامین بھی شامل ہیں جو اعتبار ساجد صاحب اور محترمہ حمیدہ شاہین صاحبہ نے لکھے ہیں ۔ان مضامین میں فاضل تجزیہ نگاروں نے اس شعری مجموعے کے تخلیقی محرکات پر روشنی ڈالی ہے اور واضح کیا ہے کہ سیدہ شاہین زیدی نے تخلیق ِ ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں امن و آشتی اور حُسن و دل کشی کی فضا پیدا کرنے کی سعی کی ہے ۔سماجی زندگی میں بے لوث محبت ،بے باک صداقت اور فلاح پر مبنی سوچ کو پروان چڑھانے کے سلسلے میں سیدہ شاہین زیدی کی مساعی کی تحسین کی گئی ہے ۔وہ تنقید و تحقیق کی اساس پر اپنے تخلیقی عمل کو بلندیوں کی جانب لے جا رہی ہیں ۔زندگی کی اقدار عالیہ سے والہانہ محبت اور قلبی وابستگی رکھنے والی اس ادیبہ نے معاشرے میں اجتماعی زندگی میں راحت ،مسرت اور تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے لیے قلم و قرطاس کو وسیلہ بنا کر لائقِ صد رشک و تحسین کام کیا ہے ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میںانسان مسائل کا گورکھ دھندا دیکھتا ہے، گجر بجنے سے دھوکا کھا کر بھیانک تیرگی میں ٹامک ٹوئیے مارتا پھرتا ہے۔انسانی حقوق پر ڈاکا ڈالنے والوں اور بے ضمیروں کے وارے نیارے اورپانچوں گھی میں ہیں جب کہ خون پسینا ایک کر کے رزق کمانے والے نانِ جویں اور دوا کو ترس رہے ہیں۔ سیدہ شاہین زیدی کی شاعری میں زندگی کے تمام موسم جلوہ گر دکھائی دیتے ہیں۔متنوع خیالات ،سچے جذبات ،تہذیب ،ثقافت ،معاشرت اور علم بشریات کے موضوع پر منفرد تجربات تازہ ہوا کے جھونکے کے ما نند نہاں خانہء دل پر دستک دیتے ہیں ۔
مانا کہ وہ جہاں کی نظر میں خراب تھا
لیکن وہ شخص اپنی جگہ لا جواب تھا
اب تلک اس کو بُھلایا بھی نہیں
دیپ یادوں کا بُجھایا بھی نہیں
اِک خلش سی مجھے مسلسل ہے
کِس کے ہاتھوں میں میرا پَل پَل ہے
خود کو کیسا روگ لگایا
اپنا تن من آپ جلایا
ستم کے سا تھ رہنا ہے سزا کے ساتھ رہنا ہے
وفا بن کر مُجھے اُس بے وفا کے ساتھ رہنا ہے
پُرانی کوئی اُس کو یاد آ گئی ہے
نئے چاند کو دیکھ کر رو پڑی ہے
خیال اُس کا سبھی موسموں میں رہتا ہے
وہ میری سوچ کے سب زاویوں میں رہتا ہے
چار سُومایوسیوں کے ابر ہیں چھائے ہوئے
چاند تارے بھی مِرے آنگن سے شر مائے ہوئے
اُن لوگوں کی نظروں سے میں ڈرتی بھی بہت ہوں
لیکن میں اُسے پیار تو کرتی بھی بہت ہوں
وہ مُجھ سے کھو گیا ہے کیا کروں میں
کِسی کا ہو گیا ہے کیا کروں میں
اِس راہِ محبت میں جو ناکام ہوئے ہیں
وہ لوگ کہاں شہر میں گُم نام ہوئے ہیں
تُجھ سے بچھڑ کے دِل میں بغاوت نہیں ہوئی
اب تک کسی سے ہم کو عداوت نہیں ہوئی
یہ اور بات کہ حالات مہربان نہ تھے
بِچھڑنے والے مگر ہم سے بد گُمان نہ تھے
ادائے مِہر ،روایات زندگی کی نہیں
نہ انحصار کرو اِس پہ ،یہ کِسی کی نہیں
جو میری آنکھوں میں آ بسے تھے وہ خواب سارے بکھر گئے ہیں
بہار کیسی چمن میں آئی گُلاب سارے بکھر گئے ہیں
وہ مِلتا ہے اجنبی کی طرح وہ نقش سارے مِٹا رہا ہے
نہیں ہے ممکن اُسے پتا ہے وہ خود کو یوں آزما رہا ہے
سیدہ شاہین زیدی نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کر کے زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا ثبوت دیا ہے ۔خاص طور پر ان کی قطعہ نگاری قاری کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے ۔شاعرہ کے فکری اور ذہنی سفر کا جملہ احوال ان کے اسلوب میں جلوہ گر ہے :
بدل دیا گیا ہے نظامِ فِکر و شعور
یہ آگ کِس نے نشیمن کو پِھر لگا دی ہے
خیال ِ خاطر احباب کے لیے ہم نے
جو زیست باقی بچی تھی سو وہ گنوا دی ہے
زہرِ غم اب پیا نہیں جاتا
اب تِرے بِن جِیا نہیں جاتا
جانتی ہوں کہ تم نہ آئو گے
چاکِ دِل کیوں سِیانہیں جاتا
سیدہ شاہین زیدی کی نظموں کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ شاعرہ نے جِن سر چشموں اور منابع سے خیالات کشید کیے ہیں ان کا زندگی کے تجربات اور مشاہدات سے گہرا تعلق ہے ۔ ان نظموں میں زندگی کی صداقتیں الفاظ کے قالب میںڈھل کر قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہیں ۔ایک زیرک ،فعال ،جری اور مستعد تخلیق کار کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ تخلیق ِ فن کے لمحوں میں کسی قسم کی فنی پا بندی کو لائق اعتنا نہیں سمجھتا اور جو کچھ اس کے دل پہ گُزرتی ہے وہ اُسے زیب قرطاس کرکے خوں بن کے رگِ سنگ میں اتر جاتا ہے۔نثری نظموں میں شاعرہ کے تخیل کی جو لانیاں جہاں اس کے ذہن وذکاوت کی بلند پروازی کی مظہر ہیں وہاں یہ شاعرہ کی بلند ہمتی اور زبردست قوتِ اِرادی کو بھی حقیقی تناظر میں پیش کرتی ہیں ۔
معجزہ
پھر اِک دِن
معجزہ یہ بھی تو ہونا ہے
ذرا ٹھہرو!
ہمیں مِلنا تو ہے
اِک دِن
تم اپنے دِل کو سمجھائو
ابھی موسم نہیںبدلا
ابھی اطراف میں ہیں
ہجر کے پہرے !
سیدہ شاہین زیدی کی شاعری میں جو تخلیقی تجربات جلوہ گر ہیں وہ سماج اور معاشرتی زندگی کے ساتھ اس کے تشخص کو ظاہر کرتے ہیں۔خواتین ،مائوں ،بچوں اور دُکھی انسانیت کے مسائل اس کی شاعری کا اہم موضوع ہیں۔شاعرہ نے دُکھی انسانیت کے ساتھ اپنے قریبی تعلق کو ایک تخلیقی ناتے کی صورت میں پیرایہء اظہار عطا کر کے اسے منفرد آہنگ عطا کیا ہے ۔زندگی کی برق رفتاریوں نے اقدار و روایات کی کایا پلٹ دی ہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عصری آگہی کو پروان چڑھاتے ہوئے تخلیقی عمل کو اقتضائے وقت کے مطابق ماحول و معاشرت سے ہم آ ہنگ کر دیا جائے ۔سید ہ شاہین زیدی نے حُسن و رومان اور گُل و بلبل کے بیان پرکوئی توجہ نہیں دی بل کہ ایک سچے تخلیقی فن کار کی حیثیت سے انسانیت کو درپیش مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔اپنی شاعری میں اُنھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے
استحصال ، ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔وہ تاریخ اور فطرت کے اُن تمام عوامل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتی ہیںجن کی بدولت زندگی میں روشنی کا سفر جاری ہے ۔اُن کا خیال ہے کہ انسانی زندگی کے جملہ نشیب و فراز اور نوع انساں کی قسمت کا احوال ان عوامل سے مربوط ہے ۔
حقیقت
محبت کیا ہے ؟
ایک پُھول کے مانند
جِس کو اِک نہ اِک دِن
بِکھر ہی جانا ہے
مگر !
محبت اور پُھول کو
کِھلنے سے
بھلا کوئی
روک سکا ہے ؟
اپنی شاعری میں سیدہ شاہین زیدی نے جس مہارت سے زندگی کے حقائق کی ترجمانی کرتے ہوئے اُنھیں پیرایہء اظہار عطا کیا ہے وہ اُن کے منفرد اسلوب کا ثبوت ہے ۔معاشرتی زندگی کے متعدد عوامل ایسے ہیں جو عام آدمی کی نظروں سے اوجھل رہ جاتے ہیں ۔سیدہ شاہین زیدی نے ان تمام پوشیدہ عوامل اور ان سے وابستہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرتے ہوئے ان کو زندگی کی مسلمہ صداقتوں سے منسلک کر کے فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرنے کی راہ دکھائی ہے ۔زندگی کے مظاہر اور انسان اپنی حقیقی صورت میں اس شاعری میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ۔اس شاعری کا تعلق کسی ایک علاقے ،زبان یاخاص تہذیب و معاشرت سے نہیں بل کہ اس میں تمام انسانیت کو درپیش مسائل کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے ۔اس لیے اس شاعری میں شامل نظمیں معجزہ ،چاہت کا فسوں ،کشمکش،حصار ،دعا ،آمدِ بہار ،اُداس چہرے ،نہ جانے امن کب ہو گا ؟شام کے سائے ،کچھ خواب ادھورے سے ،بِھیڑ میں گُم ہوتی ہوئی زندگی ،سمندر سیراب کرتا ہے اور ہلچل تو بے حد خیال افروز اورجہانِ تازہ کی مہک سے معطر ہیں۔ اس لیے ان پُر تاثیر نظموں کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ان نظموں میں روایت اور جدت کے امتزاج سے ایک دل کش سماں باندھا گیا ہے ۔شاعرہ نے اپنے مشاہدات ،تجربات ،احساسات اور جذبات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالتے وقت جس خلوص اور دردمندی کو پیشِ نظر رکھاہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ زندگی کی منتشر فطری حقیقتوں کو اپنے تخیل کی ڈوری میں پروکر انھیں نئے معانی اور مفاہیم عطا کرکے ہمارے شعور کاجزو بنا دینے والی اس با صلاحیت شاعرہ نے اردو شاعری میں تانیثیت کے حوالے سے جو اہم خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔زندگی کی دُھوپ چھائوں ،نشیب و فراز اور ارتعاشات سے اس کے ذہن میں جو تصویر مرتب ہوئی اس کا حقیقی احوال شاعرہ نے قاری کے سامنے پیش کر دیا ہے ۔ شاعرہ کے تخلیقی تجربات اور فکر و خیال کی داخلی اور خارجی کیفیات کی ترجمانی کرنے والی یہ شاعری قاری کو زندگی سے پیار کرنے پر مائل کر تی ہے ،اس لیے مجھے اس شاعری سے مستقبل میں بہت توقعات وابستہ ہیں۔