انوار صاحب نے آگے بڑھ کے موبائل لیا تو ان کا بھی وہی حال ہوا۔
" ایسا کیا ہے اس میں دکھائیں مجھے۔ "
عائلہ بیگم نے ان کے ہاتھ سے موبائل لیا تو دیکھا اسکرین پر زوہا اور داور کی تصویر تھی جس میں داور نے زوہا کے سامنے ہاتھ کیا ہوا تھا اس کا ہاتھ تھامنے کے لئے۔
اصل میں یہ تصویر مشعل ی منگنی کی تھی جس میں داور نے مشعل کے آگے ہاتھ بڑھایا ہوا تھا۔ پر زوہا مشعل کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی اور تصویر میں مشعل کو اس طرح کروپ کیا گیا تھا کہ لگ رہا تھا داور زوہا کا ہاتھ تھام رہا ہے۔ اس کے علاوہ چند ایک اور بھی اسی طرح کی تصویریں تھیں جس میں زوہا اور داور شاعر کو ساتھ دکھایا گیا تھا۔
" زوہا ایسی نکلے گی میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ بھائی صاحب آپ ایک دفعہ اپنی بیٹی سے پوچھ تو لیتے وہ کیا چاہتی۔ اس کی وجہ سے آج میرا بیٹا مشکل میں آگیا۔ اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا ناں تو میں آپ میں سے کسی کو معاف نہیں کروا گی سن لیں آپ۔ "
عائلہ بیگم یہ کہہ کر وہاں سے نکل گئیں۔
لاکھ وہ زوہا کو اپنی بیٹی سمجھ لیں پر اپنی جوان اولاد کو مشکل میں دیکھ کر اور جو کچھ اب ہوا اس کے بعد وہ بھی زوہا سے بد ظن ہو ہی گئیں۔
" اب جو ہونا تھا ہو گیا تم سنبھالو خود کو اور صفدر علی شاہ کو بات کرکے جتنی جلدی ہو سکے زوہا کی شادی داور سے کروا دو اگر اپنی بچی کچھی عزت بچانی ہے تو۔ میں ذرا مہمانوں کو دیکھوں جا کر۔ "
انکا اپنا بیٹا غائب تھا اور نجانے کس حال میں تھا۔ مگر وہ اپنی فکر کو سینے میں دبائے بھائی کا ساتھ دے رہے تھے۔
پھر جیسے تیسے بہانہ کرکے انہوں نے مہمانوں کو رخصت کیا۔
پہلے اتنی جلدی نکاح اور پھر فائز کا غائب ہو جانا لوگوں نے ان کے سامنے سوالوں کے پہاڑ کھڑے کر دیئے تھے جن کے جواب میں ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔
نسرین بیگم اور عائلہ بیگم دونوں کا رو رو کر برا حال تھا۔ دونوں ہی اپنی اپنی اولاد کے غم میں نڈھال تھیں۔
فائز ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔
مائز کو بھی انوار صاحب نے ساری صورتحال بتا کر گھر واپس بلا لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اظہار صاحب زوہا کے کمرے میں داخل ہوئے اور رمشا جو زوہا سے باتیں کر رہی تھی اور آج ہونے والے سارے واقعے سے لا علم تھی اس کو مخاطب کر کے سرد لہجے میں بولے۔
" رمشا مجھے زوہا سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔ "
رمشا ان کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے بولی۔
" اچھا زوہا میں آتی ہوں۔ "
یہ کہہ کر وہ باہر چلی گئی۔
پر وہ اپنے ہمیشہ ہنسنے مسکرانے والے چچا کا یہ لب و لہجہ سن کے حیران تھی۔
یہی حالت اندر بیٹھی رمشا کی تھی۔
" یہ کیا ہے۔ "
اظہار صاحب نے موبائل اس کے سامنے کیا۔
زوہا نے نا سمجھی سے اظہار صاحب کی جانب دیکھا پھر اس کے بعد اسکرین کی طرف دیکھا تو دیکھا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ جانے کی حد تک کھل گئیں۔ کچھ کہنے کی خواہش میں اس کے لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ اس کے قدم لڑکھڑا گئے۔ اس نے بروقت دیوار کا سہارا لے کر خود کو گرنے سے بچایا۔
" تم پہلے سے جانتی تھی اس لڑکے کو۔ "
اظہار صاحب درشتگی سے بولے۔
انہوں نے زندگی میں پہلی بار زوہا سے اس لہجے میں بات کی تھی۔
" نہیں بابا وہ۔ "
" زوہا میں نے بچپن سے تمہیں ہر طرح کی آزادی دی۔ تم پر اعتبار کیا۔ یہ صلہ دیا اس کا تم نے مجھے۔ تماشہ بنا دیا ہے تم نے میرا۔ کہیں منہ دکھانے کے لئے نہیں چھوڑا تم نے مجھے۔ "
" بابا کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو یہ میں نہیں ہوں بابا۔ "
" کیا ہو گیا ہے یہ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو۔ یہ تصویر تمہاری ہی ہے تصویر میں پہنے کپڑے تمہارے ہیں اور تم کہہ رہی ہو کہ یہ تم نہیں ہو۔ اٹھوا لیا ہے فائز کو صفدر علی شاہ نے صرف تمہاری وجہ سے ۔ "
" کک۔ کیا فائز بھائی کو۔ "
" ہاں۔ زوہا اگر تم پہلے بتا دیتی تو میں خود تمہاری داور سے شادی کروا دیتا۔ بھائی صاحب تو ہمارا ہی بھلا چاہ رہے تھے۔ پر ہماری وجہ سے انکا بیٹا مشکل میں آگیا۔ اب کیا منہ دکھائوں گا میں ان کو۔ "
" بابا یہ جھوٹ ہے سب کچھ آپ یقین کریں میرا۔ بابا آپ تو جانتے ہیں آپ کی زوہا ایسا نہیں کر سکتی۔ بابا یقین کریں میرا داور علی شاہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ "
زوہا نے اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔
" یقین! یقین ہی تو کیا تھا تمہارا جس کا مجھے یہ صلہ ملا ہے مجھے۔ آج سے تمہارا اور میرا ہر رشتہ ختم۔ "
" نہیں بابا ایسا مت کہیں۔ "
وہ تڑپ کر بولی۔
" اب میں خود داور سے تمہاری شادی کروائوں گا۔ اب جتنے دن بھی تم یہاں ہو مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔ "
یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئے۔
" نہیں بابا ایسا مت کریں۔ آپکی بیٹی بے گناہ ہے آپ تو اس کا یقین کریں۔ "
زوہا پیچھے روتی ہوئی چلائی۔
پھر ایک ایک کر کے اپنا زیور نوچ کر پھینک دیا۔
" خدا تمہیں غارت کرے داور علی شاہ۔ سکون کو ترسو تم۔ میری ہنستی بستی زندگی میں طوفان کھڑا کر دیا ہے تم نے۔ "
وہ نیچے کارپٹ پر بیٹھ کر روتے ہوئے داور کو کوسنے لگی۔ " تم مجھ سے میرا سکون چھین کر اپنی زندگی میں شامل کر رہے ہو ناں اگر تمہاری زندگی کو مشکل نہ بنا دیا تو میرا نام زوہا نہیں۔ "
ہاں ٹوٹی تھی کچھ پل کے لئے
اب ایک ایک ٹکڑا اٹھاؤں گی
چل اب تو بھی دیکھ
میں کیا خوبصورت قصہ بناؤں گی
Copied
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دس بجے تھے اور وہ سب ڈرائنگ روم میں میں پریشان بیٹھے تھے کیونکہ فائز اب تک گھر نہیں آیا تھا۔
زوہا اپنے روم میں تھی کیونکہ اظہار صاحب نے اسے باہر نکلنے سے منع کر دیا تھا۔
اظہار صاحب نے موبائل اٹھایا اور صفدر صاحب کو کال لگائی۔
تین چار بیلوں کے بعد فون اٹھالیا گیا۔
اور صفدر صاحب کی آواز ابھری۔
" جی کہیئے اظہار صاحب کیسے فون کیا۔ "
" صفدر صاحب میں تیار ہوں اپنی بیٹی کی شادی آپکے بیٹے کے ساتھ کرنے کے لئے۔ آپ میرے بھتیجے کو چھوڑ دیجئے۔ "
اظہار صاحب شکستہ لہجے میں گویا ہوئے۔
" آپ کا بھتیجا اگلے دس منٹ میں آپکے پاس ہوگا۔ پر دوسرا کام ذرا مشکل ہے۔ اب آپ خود ہی سوچئے ایک عزت دار آدمی کیسے ایک ایسی لڑکی کو اپنی بہو بنا سکتا ہے جسکا منگیتر عین نکاح والے دن اسے چھوڑ کر بھاگ گیا۔ یقینا لڑکی میں کوئی کمی ہی ہوگی۔ "
" صفدر صاحب ایسا مت بولئے میری عزت اب آپکے ہاتھ ہے۔ "
اظہار صاحب گڑگڑائے۔
" ہاہاہاہا کہا تھا نا ہم نے کہ آپ خود کریں گے مجھے فون اب۔ چلیں آپ اتنی منتیں کر رہے ہیں تو ہم مان جاتے ہیں۔ "
صفدر صاحب احسان کرنے والے انداز میں بولے۔
" پھر آپ کب آئیں گے اپنی امانت لینے؟ "
" یہ ہم خود طے کرکے آپ کو بتا دیں گے۔ "
یہ کہہ کر انہوں نے فون کاٹ دیا۔
" کیا کہا انہوں نے؟ "
عائلہ بیگم نے فون بند ہوتے ہی پوچھا۔
" کہہ رہیں ہیں تھوڑی دیر تک آجائے گا فائز۔ "
فون بند ہوئے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ فائز لڑکھڑاتا ہوا اندر داخل ہوا۔
" فائز !!! میرا بچہ۔ "
عائلہ بیگم اس کے خون میں بھرے ہوئے کپڑے دیکھ کر دہل کر کھڑی ہوئیں۔
مائز نے اسے آگے بڑھ کر سہارا دیا اور صوفے پر لاکر بٹھا دیا۔
" میں زوہا کو بتاتی ہوں فائز بھائی آگئے۔ "
رمشا یہ بول کر جانے لگی کہ فائز کی آواز نے اسکے بڑھتے قدم روک دیئے۔
" کوئی ضرورت نہیں ہے اسے بتانے کی۔ اسے تو پتا ہوگا آخر کو وہ برابر کی شریک تھی۔ "
" نہیں بھائی زوہا ایسی نہیں ہے۔ "
" خاموش ہو جائو تم۔ زوہا ایسی نہیں ہے۔ ارے اسی کا پھیلایا ہوا ہے یہ سارا کا سارا فساد۔ چلو اوپر تم اور دوبارہ میں تمہیں زوہا کے ساتھ نہ دیکھوں۔ اور مائز بھائی کو بھی لے آئو اوپر۔ "
یہ کر وہ رمشا کو لے کر اوپر چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" بیگم داور کہاں ہے؟ "
صفدر صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
" وہ صبح سے کمرے میں بند ہے آج اس لڑکی کا کسی اور سے نکاح ہے۔ بس اسی بات کا غم منا رہا ہے۔ "
گلزار بیگم نے آنسو بہاتے ہوئے جواب دیا۔
" اچھا! چلو میرے ساتھ اسکے کمرے میں۔ "
" نہیں داور نے منع کیا ہے کہ آج کوئی اس کے کمرے میں نہ جائے۔ "
" جب میں تمہیں چلنے کا کہہ رہا ہوں تو بس چلو۔ "
یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔
گلزار بیگم بھی آنسو پونچھتی ہوئی ان کے پیچھے ہو لیں۔
داور کے کمرے کے پاس پہنچ کر وہ دستک دے کر اندر چلے آئے اور بولے۔
" کیسا ہے میرا شیر جوان۔ "
صفدر صاحب کی آواز سن کر داور نے چونک کر آنکھوں سے ہاتھ ہٹائے اور اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور ایک ناراض نظر گلزار بیگم پر ڈالی کہ وہ منع کرنے کے باوجود بھی اس کے کمرے میں آ گئے۔ گلزار بیگم اس سے نظریں چرا کر رہ گئیں۔
اور بولا۔
" ارے بابا سائیں! آپ آئیں بیٹھیں۔ "
" اگر آج ہم تم سے کچھ مانگیں۔ تو منع تو نہیں کرو گے؟ "
صفدر صاحب اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولے۔
گلزار بیگم پیچھے صوفے پر بیٹھ گئیں۔
" بابا سائیں۔ یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ کے لئے تو جان بھی حاضر ہے۔ آپ حکم کریں۔ "
وہ ان کے ہاتھ تھام کر بولا۔
" ہم نے تمہارا رشتہ طے کر دیا ہے۔ "
داور کو اپنے آس پاس دھماکے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔
" صفدر صاحب یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ "
پیچھے سے گلزار بیگم بولیں۔
" یہ میرا اور میرے بیٹے کا معاملہ ہے۔ بولو داور کیا کہتے ہو تم۔ "
وہ گلزار بیگم کو تنبیہہ کر کے داور سے بولے۔
" بابا سائیں کیوں آپ کسی لڑکی کی زندگی برباد کرنا چاہتے ہیں۔ مجھ جیسا انسان جو اندر سے بالکل خالی ہے وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے۔ میں کسی معصوم کی بد دعا نہیں لینا چاہتا۔ "
اس نے اپنے گود میں دھرے ہاتھوں کو دیکھ کر جواب دیا۔
" داور کیا وہ ایک لڑکی تمہیں اتنی پیاری ہو گئی ہے کہ تم اس کے پیچھے ہماری برسوں کی محبت کو بھول جائو۔ کیا ہمارا دل نہیں چاہتا تمہاری خوشیاں دیکھنے کا۔ "
" بابا سائیں کچھ وقت نہیں مل سکتا کیا؟ "
داور خود کو سنبھالتے ہوئے بولا۔
" ارے ابھی صرف بات ہوئی ہے۔ شادی جب تم بولو۔ "
" ٹھیک ہے۔ جیسے آپ کی مرضی۔ "
وہ دل پر پتھر رکھ کر بولا۔
وہ انہیں مزید دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔
" مجھے پتا تھا تم منع نہیں کرو گے۔ میرا مان رکھ لو گے۔ پوچھو گے نہیں کون ہے وہ۔ "
صفدر صاحب اسکا ماتھا چومتے ہوئے بولے۔
" بس آپ جانتے ہیں۔ میرے لئے وہی کافی ہے۔ "
" پھر بھی جاننا حق ہے تمہارا۔ "
" اچھا! پھر خود ہی بتا دیں آپ۔ "
" تم جانتے ہو انہیں۔ وہ اظہار صاحب ہیں ناں اپنے زوار کے دوست کے چاچو انکی بیٹی زوہا۔ "
" اچھا۔ "
پہلے تو وہ بےدھیانی میں بول گیا۔
پر جب اسے بات سمجھ آئی تو وہ اچھل پڑا۔
" یہ کیا کہہ رہے ہیں بابا سائیں آپ۔ اسکا تو نکاح تھا آج۔ "
وہ حیرت سے چور لہجے میں بولا یہی حال پیچھے بیٹھی گلزار بیگم کا تھا۔
" ہاں تھا۔ پر وہ میرے بیٹے کے نصیب میں لکھی تھی تو اس کا نکاح اور کسی سے کیسے ہوسکتا تھا۔ عین نکاح والے دن اسکا منگیتر غائب ہوگیا۔ پورے خاندان میں انکی بہت بدنامی ہوئی۔ فون آیا تھا انکا۔ گڑگڑارہے رہے تھے کہ میری عزت بچا لو اسی لئے ہاں کردی میں نے۔ اب بتائو شہزادے کب کرنی ہے شادی۔ "
" جب آپکو صحیح لگے۔ "
داور اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بولا۔
" چلیں دو سال کا ٹائم دے دیتے ہیں۔ "
صفدر صاحب مصنوعی سنجیدگی سے بولے۔
"کیوں میرے بچے کو تنگ کر رہے ہیں بس ایک مہینے بعد کی تاریخ رکھ لیں۔ مجھے بھی سو تیاریاں کرنی ہیں۔ "
گلزار بیگم داور کے پاس بیٹھ کر بولیں۔
" ٹھیک ہے۔ "
یہ کر صفدر صاحب چلے گئے۔
تھوڑی دیر گلزار بیگم بھی اس سے باتیں کرنے کے بعد اس کے ماتھے پر پیار کرکے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دے کر چلیں گئیں۔
داور کے ہونٹوں سے مسکراہٹ ہی جدا نہیں ہو رہی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے اسے دوبارہ زندگی مل گئی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے طرف گھر میں سب نے زوہا کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا تھا اظہار صاحب نے نسرین بیگم کے ذریعے اسے یہ اطلاع پہنچا دی تھی کہ داور کے ساتھ اسکی شادی طے کردی ہے ایک مہینے بعد۔
زوہا کے دل میں داور کے لئے نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔
کیا کیا نہیں سوچا تھا اس نے اپنی زندگی کے لئے۔
داور نے اس کے سارے خواب توڑ دیئے تھے۔
اس نے سوچ لیا تھا سکون میں اگر وہ نہیں تو داور کو بھی نہیں رہنے دے گی۔
اسے کھانا کھانے کے لئے بھی باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
نسرین بیگم ہی اسے کمرے میں کھانا دے جاتی تھیں۔
یہ کمرہ اس کے لئے قید خانہ بن کر رہ گیا تھا۔
رمشا کو بھی عائلہ بیگم نے نیچے آنے اور زوہا سے ملنے سے منع کر دیا تھا۔
اس کو جان سے زیادہ چاہنے والے اس کی ایک خراش پر تڑپ اٹھنے والے بالکل اجنبی ہو گئے تھے۔
آج وہ اظہار صاحب کو منانے کی ایک آخری کوشش کرنے کے لیے ان کے کمرے میں آئی تھی۔ دروازے کے باہر کھڑے ہو کر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے اظہار صاحب کی آواز آئی۔
" آ جائو۔ "
اجازت ملنے پر زوہا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
" بابا! "
اس نے پکارہ۔
ذوہا کی آواز پر وہ جو کچھ رجسٹر لیے حساب کتاب میں مصروف تھے۔ انہوں نے چونک کر سر اٹھایا اور کرخت آواز میں استفسار کیا۔
" تم یہاں کیا کر رہی ہو۔ بولا تھا نا میں نے تمہیں کہ میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا پھر کیوں آئی ہو یہاں۔ "
" بابا ایک بار میری بات سن لیں۔ مجھے ایک بار تو صفائی دینے کا موقع دیں۔ "
وہ گڑگڑائی۔
" مجھے نا تمہاری بات سننی ہے اور نا ہی تمہاری کوئی صفائی چاہیے۔ تم جا سکتی ہو۔ "
اں کا لہجہ درد ہی تھا۔
" بابا پلیز میرا یقین کریں میں نے کچھ نہیں کیا۔ "
اس نے ایک کوشش اور کی۔
" مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ میں آخری دفعہ بول رہا ہوں تم یہاں سے چلی جائو۔ "
اب کہ وہ دو ٹوک انداز میں گویا ہوئے۔
زوہا کوئی امید نا پا کر شکستہ قدموں سے نا مراد لوٹ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ حویلی میں تیاریاں زوروشور سے جاری تھی۔
گلزار بیگم کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔
روز وہ شہر جا رہی تھیں خریداری کرنے کے لئے۔
وہ چاہتی تھیں زوہا سب کچھ اپنی مرضی سے لے پر اظہار صاحب نے سہولت سے انہیں انکار کر دیا تھا اسی لئے وہ خود ہی خرید رہی تھیں یا کبھی کبھار داور ان کے ساتھ چلا جاتا۔
آج بھی وہ داور کے ساتھ جارہی تھیں برات کا سوٹ لینے۔
زیور کا جو آرڈر انہوں نے دیا ہوا تھا وہ بھی آج ہی ملنا تھا۔
تو انہوں نے آج سوچا آج ہی زوہا کو سوٹ اور زیور دے کر آجائیں گی۔
شادی میں ایک ہفتہ ہی بچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسرین بیگم ابھی زوہا کو کمرے میں سامان دے کر گئی تھیں جو اس کے سسرال سے آیا تھا۔
سامان دیکھ کر اسکے سارے زخم پھر سے ہرے ہو گئے تھے۔
اس نے لہنگا اٹھا کر دیکھا جو اپنی قیمت چیخ چیخ کر بتا رہا تھا۔
کبھی اس کے دل میں خواہش تھی کہ وہ اپنی شادی پر ڈیزائنر لہنگا پہنے گی۔
پر آج اس کی خواہش پوری ہوئی بھی تو کب! جب اس کے دل میں کوئی خواہش نہیں رہی تھی۔
اسے بے اختیار رمشا یاد آئی کیا کیا نہیں سوچا تھا انہوں نے ایک دوسرے کی شادی کے لئے۔
پر کون جانتا تھا کہ نوبت یہاں پہنچ جائے گی۔
کہ وہ اس کی شادی میں شریک بھی نہیں ہو سکے گی۔
وہ بے آواز رو رہی تھی۔
اب تو اس کے آنسو بھی ختم ہونے لگے تھے رو رو کر۔
عائلہ بیگم نے سارے خاندان میں یہ بات پھیلا دی تھی کہ اسے ایک امیر لڑکا مل گیا تو وہ فائز سے کیسے شادی کرتی۔
عائلہ بیگم کی باتوں پر مہر لگ جائے گی۔ جب وہ یہ سب پہنے گی۔
پر اسے لوگوں کی باتوں کی فکر نہیں تھی کیونکہ اس پر تو اس کے ماں باپ ہی نے یقین نہیں کیا تھا لوگ تو دور ہیں پھر۔
اس کے دل میں موجود داور کے لئے نفرت کے درجے اور بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر کار مہندی کا دن آن پہنچا۔
پوری حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ مہندی کی مناسبت سے پوری حوہلی کی دیواروں پر گیندے کے پھولوں کی لڑیاں لگائی گئی تھیں۔ حویلی کے لان میں ہی ایک جانب اسٹیج بنایا گیا تھا۔
داور سفید کلف لگے سوٹ میں گلے میں گرین دوپٹہ مفلر کی طرح ڈالے شہزادہ لگ رہا تھا۔
ہونٹوں پہ مدھم سی مسکراہٹ تھی جو اس کی اندرونی خوشی کو ظاہر کر رہی تھی۔
گلزار بیگم تو بار بار اس کی نظر اتار رہی تھیں۔
داور کی مسکراہٹ صفدر صاحب کے دل کو ٹھنڈک پہنچا رہی تھی۔
خلاف معمول وہ ہر چھوٹے بڑے سے مسکرا کر مل رہے تھے۔
دوسری طرف اظہار صاحب سادگی سے شادی کرنا چاہتے تھے پر دنیا دکھاوے کے لئے انہیں ہر کام شاندار کرنا پڑرہا تھا۔
زبردستی کی مسکراہٹ بھی ہونٹوں پر لانی پڑ رہی تھی۔
زوہا پیلے اور ہرے سوٹ جس پر خوبصورت کام ہوا تھا زیب تن کئے ہوئے تھی۔
پھولوں کے زیور پہنے ہوئے بہت ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔
سوگواریت نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیئے تھے۔ مہندی کا رنگ بہت گہرا چڑھا تھا اسکا
فنکشن لائونج میں ہی منعقد کیا گیا تھا۔
ایک طرف صوفے کو پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ قالین اور گائو تکیے لگا کر مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔
عائلہ بیگم نہ ہی خود آئی تھیں اور نہ ہی رمشا کو آنے دیا تھا۔
زوہا کی نظریں بار بار سیڑھیوں کی جانب اٹھ رہی تھیں کہ شاید رمشا آجائے پر اسے ہر دفعہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نسرین بیگم پورے فنکشن میں صرف ایک دفعہ آکر بیٹھی تھیں اس کے پاس وہ بھی صرف مہندی لگانے کے لئے۔
باقی کا پورا فنکشن یا تو وہ مہمانوں کو سنبھالتی رہیں یا پھر مختلف کاموں کا بہانہ کر کے ادھر ادھر لگی رہیں۔
اظہار صاحب نے تو یہ کہہ کر آئے ہی نہیں تھے کہ
" عورتوں کا فنکشن ہے اس میں میرا کیا کام۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔