نکاح کی تیاریوں میں یہ ہفتہ پر لگا کر اڑ گیا۔ اور آج نکاح کا دن بھی آگیا۔
ٹائم کم ہونے کی وجہ سے کارڈ کے بجائے موبائل کا استعمال کیا گیا تھا سب کو دعوت دینے کے لئے۔
جس کو بھی دعوت کی کال کی گئی اسی نے سو طرح کے سوال کئے اتنی جلدی نکاح رکھنے پر۔ وہ عاجز آگئے تھے لوگوں کے سوال جواب سے۔ کیونکہ آج تک زوہا کے جتنے بھی رشتے آئے تھے انہیں یہ کہہ کر ہی منع کیا گیا تھا کہ وہ ابھی پڑھ رہی ہے تو اس طرح اچانک سے اس کے نکاح کا سن کر لوگوں نے طرح طرح کی باتیں بنائی تھیں۔
زوہا کو دوبارہ گھر سے باہر نکلنے نہیں دیا گیا ، بیوٹیشن کو بھی گھر ہی بلایا گیا تھا صفدر صاحب کی دھمکی کی کال کی وجہ سے۔
( دو دن پہلے )
اظہار صاحب کو ایک انجان نمبر سے کال موصول ہوئی۔
" ہیلو! کون؟ "
" ارے اتنی جلدی بھول گئے ہمیں آپ۔ ابھی تو آپ کی طرف ہمارے بہت سے حساب باقی ہیں۔ "
" صفدر علی شاہ "
اظہار صاحب کے منہ سے سرگوشی کے انداز میں اتنا ہی نکلا۔
" ارے آپکا حافظہ تو بہت اچھا ہے۔ جی میں ہی بات کر رہا ہوں صفدر علی شاہ۔ "
" کیوں فون کیا آپ نے؟ جب ہم آپ کو جواب دے چکے ہیں۔ "
" صرف اتنا بتانے کے لئے کہ دلہن تو آپکی بیٹی میرے ہی بیٹے کی بنے گی۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیسے بناتے ہیں۔ عزت سے یا پھر۔ "
صفدر صاحب نے بات ادھوری چھوڑی۔
" دیکھیں میں اپنی بیٹی کے بارے میں کسی بھی طرح کا فیصلہ لینے کا اہل ہوں۔ آپ مجھے ایسے دھمکا نہیں سکتے۔ "
" میں دھمکا نہیں رہا سمجھا رہا ہوں آپکو۔ سمجھ جائیں تو ٹھیک ورنہ انجام کے ذمہ دار آپ خود ہونگے۔ ہم نے عزت سے آپ کی بیٹی کو اپنی عزت بنانا چاہا پر آپ کو شاید عزت پیاری نہیں ہے اپنی۔ اب جو ہو گا وہ سب دیکھ لیں گے۔ "
یہ کہہ کر صفدر صاحب نے کال کاٹ دی۔
اظہار صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ انوار صاحب جو اظہار صاحب کے پاس کسی کام سے آرہے تھے اظہار صاحب کو سر پکڑے دیکھ کر پریشانی سے انکے پاس چلے آئے۔
" اظہار خیریت اس طرح سر پکڑے کیوں بیٹھے ہو؟ "
" بھائی صاحب وہ۔ " اور انہوں نے صفدر صاحب سے ہونے والی ساری گفتگو ان کے گوش گزار دی۔
" بھائی صاحب انہوں نے صاف الفاظ میں دھمکی دی ہے اب کیا ہو گا؟ میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔ "
اظہار صاحب پریشانی سے گویا ہوئے۔
" تم فکر مت کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بس تم نکاح تک زوہا کو گھر سے باہر مت نکلنے دو۔ نکاح ہو جائے گا تو وہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ "
" ہمممم صحیح ہے۔ "
( حال )
دن کے بارہ بجے کا وقت تھا۔ فائز اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا۔
نکاح عصر کے بعد ہونا طے پایا تھا۔
وہ زوار کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جو بھی تھا وہ اسکا بچپن کا ساتھی تھا۔
اس نے کب سوچا تھا کہ اپنی زندگی کے اتنے بڑے دن پر وہ اسے نہیں بلائے گا۔ ابھی تک اس کا زوار سے رابطہ بھی نہیں ہو سکا تھا۔
وہ دونوں اکثر پلاننگ کیا کرتے تھے کہ ایک دوسرے کی شادی پر وہ کیا کریں گے کیسے کپڑے بنوائیں گے۔ پر داور کی وجہ سے کیا ہوگیا تھا۔ اس نے ہمیشہ داور کو ایک بڑے بھائی کی طرح عزت دی اور آج اسکی وجہ سے ہی وہ اپنے سب سے اچھے دوست سے دور تھا۔
" نجانے کیوں انسان اپنی پلاننگ میں اسے بھول جاتا ہے۔ وہ جو اوپر بیٹھا انسان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کی تقدیر لکھ دیتا ہے اور بے شک وہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔ "
وہ ذہن سے ساری سوچیں جھٹک کر زوہا کے بارے میں سوچنے لگا۔
وہ ابھی انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی اس نے چونک کر فون کی جانب دیکھا۔
اس نے موبائل ہاتھ میں اٹھایا تو پتا چلا کہ ہوسپٹل سے فون ہے۔
اس نے سلائیڈ کو ٹچ کر کے فون کان سے لگایا تو اسے ایمرجنسی کی اطلاع ملی۔
" میں آرہا ہوں۔ "
یہ الفاظ کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا۔
اور اٹھ کر الماری سے کپڑے نکالتا ہوا چینج کرنے چلا گیا۔
چینج کرکے اس نے اپنا ضروری سامان اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل کر عائلہ بیگم کے پاس آیا اور انہیں ایمرجنسی کا بتایا اور جلدی آنے کا کہہ کر سیڑھیاں اتر کر باہر نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور صبح سے کمرے میں بند اپنی محبت کے کسی اور کا ہو جانے کا دکھ منا رہا تھا۔
وہ یہ جاننے کے بعد بھی کہ وہ آج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسکی دسترس سے چلی جائے گی وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔
اپنے ہاتھ اسے بندھے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔
ملازمہ دو بار اسکا دروازہ کھٹکھٹا چکی تھی ناشتے کے لئے پر اس نے منع کر دیا تھا۔
اور دوبارہ اسے ڈسٹرب کرنے سے منع کیا تھا۔
اب تیسری مرتبہ اسکا دروازہ بج رہا تھا وہ جھنجھلا کر اٹھا اور جا کر دروازہ کھولتے ہی بولنا شروع کردیا۔
" منع بھی کیا تھا۔ "
کہ گلزار بیگم کو دیکھ کر اس کی چلتی زبان کو بریک لگا۔
" ارے اماں سائیں آپ! آئیے ناں۔"
وہ انہیں تھام کر صوفے تک لایا اور انہیں صوفے پر بٹھا کر خود نیچے زمیں پر بیٹھ کر ان کی گود میں سر رکھ لیا۔
" داور میں بہت ڈر چکی ہوں۔ اس لئے تمہیں دیکھنے کے لئے آگئی۔ داور تمہیں میری قسم ہے دوبارہ ایسا مت کرنا ورنہ اب میں سہہ نہیں پائونگی۔ "
گلزار بیگم کے دل میں ڈر بیٹھ چکا تھا۔ داور کو صبح سے کمرے میں بند دیکھ کر انکا دل گھبرانے لگا تھا اسی لیے اسے دیکھنے کے لیے آگئیں۔
" مجھے معاف کردیں۔ بہت دکھ دیئے ہیں ناں میں نے آپکو۔ "
وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوا بولا۔
" نہیں ایسا نہیں بول۔ تکلیف ہوتی ہے مجھے۔ بھلا میں ناراض ہو سکتی ہوں اپنی جان سے۔ "
وہ اس کے ہاتھ کھول کر اپنے ساتھ بٹھاتی ہوئی بولیں۔
" بس اب بھول جا اسے اور پہلے جیسا ہو جا اپنی ماں کے لئے ، اپنی بہن کے لئے ، اپنے بابا سائیں کے لئے وہ بھی تیرے لئے بہت پریشان ہیں۔ "
" اماں سائیں آج کا دن بس آج کا دن مجھے اپنی محبت کے بچھڑنے کا سوگ منانے دیجئے۔ آج وہ ہمیشہ کے لیے کسی اور کی ہونے جا رہی ہے۔ مجھے اپنے دل کو سمجھانے کا موقع دے دیجیئے۔ "
وہ ان کے کندھے پر سر رکھ کر بولا۔
" وہ کوئی آخری لڑکی تھوڑی تھی۔ میں اپنے چاند کے لئے خود دولہن ڈھونڈوں گی اور تیری ایک نہیں سنوں گی۔ "
" اماں سائیں کیوں کسی معصوم کی زندگی برباد کریں گی اسے مجھ جیسے انسان کے ساتھ باندھ کر۔ میرے پاس اب کچھ نہیں بچا کسی کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔ "
گلزار بیگم کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا وہ اسے سینے سے لگا کر رو دیں۔ وہ بھی ممتا کی ٹھنڈی آغوش پا کر بے آواز آنسو بہانے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوہا کو بیوٹیشن ریڈی کرکے جا چکی تھی۔
ریڈ اور اسکن کلر کی فراک میں وہ غضب ڈھا رہی تھی۔ چہرے پر چھائی سوگواریت نے اسکے حسن کو اور زیادہ نکھار بخشا تھا۔
وہ کہتے ہیں ناں حسن سوگوار ہو تو زیادہ حسین لگتا ہے۔ عصر ہونے میں آدھا گھنٹہ تھا اور فائز کا کچھ اتا پتا نہ تھا۔
انوار صاحب بیگم پر برس رہے تھے کہ انہوں نے فائز کو جانے ہی کیوں دیا۔
" جب تمہیں منع کیا تھا فائز کو باہر بھیجنے سے تو تم نے کیوں جانے دیا۔ "
" وہ ہاسپیٹل میں ایمرجنسی ہو گئی تھی۔ آدھے گھنٹے میں آنے کا کہہ کر گیا تھا۔ "
عائلہ بیگم نے اپنی صفائی پیش کی۔
" یا خدا! کہاں ڈھونڈوں میں اسے۔ فون بھی بند آرہا ہے اسکا۔ اب تو مہمان بھی آنے لگے ہیں۔ "
" بھائی صاحب اس کے ہاسپیٹل پتا کروا لیں۔ "
" ہاں مائز کو بلوائو وہ جا کر پتا کر آئے گا۔ "
پھر انہوں نے مائز کو ہاسپیٹل بھیج دیا فائز کا پتا کرنے کے لئے۔ ابھی وہ سب بیٹھے تھے کہ اظہار کا فون بجا تھا۔
" صفدر علی شاہ کا فون ہے۔ "
اظہار صاحب بولے۔
" فون اٹھائو اور اسپیکر پر ڈالو۔ "
انوار صاحب نے ہدایت دی۔
" ہیلو۔ اب فون کرنے کا مقصد؟ "
اظہار صاحب فون اٹھا کر بولے۔
" ہم نے سمجھایا تھا تمہیں کہ ہم اپنے کی کوئی بیٹے کی کوئی بات نہیں ٹالتے۔ تمہاری بیٹی ہمارے ہی بیٹے کی دولہن بنے گی۔ پر بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔ اب انجام کے ذمہ دار خود ہوگے۔ ویسے سنا ہے تمہارا بیٹا اپنے نکاح سے بھاگ گیا۔ تو سوچا ہم بھی فون کرکے افسوس کرلیں۔ "
" یعنی فائز آپ لوگوں کے پاس ہے۔ دیکھیں آپ لوگ فائز کو کچھ نہ کہیں۔ اسے چھوڑ دیں۔ آپ جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہوگا۔ "
اظہار صاحب شکستہ سے لہجے میں بولے۔
" ہوگا گا تو وہی جیسا ہم چاہیں گے۔ پر تھوڑا سبق سکھانا تو بنتا ہے ناں۔ آخر کو آپ نے صفدر علی شاہ کو انکار کرنے کی جرات کی تھی۔ "
" پلیز میرے بیٹے کو چھوڑ دیں اسے کچھ نہ کریں۔ "
اب کی بار عائلہ بیگم روتی ہوئی بولیں۔
" معاف کیجیئے گا بھابھی پر جو چوٹ آپ لوگوں نے میرے بیٹے کو پہنچائی تھی اسکا تھوڑا تو بدلہ بنتا ہے ناں۔ اور کچھ بھیج رہا ہوں آپکے موبائل پر دیکھ لیجئے گا ہماری طرف سے تحفہ ہے آپکے لئے۔ "
یہ کہہ کر انہوں نے فون کاٹ دیا۔
تھوڑی دیر بعد ان کا فون بجا ۔۔ دیکھا تو کچھ تصویریں تھیں انہیں کھولا تو جو انہیں دیکھنے کو ملا اسے دیکھ کر انہیں حیرت کا جھٹکا لگا اور فون انکے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔