اگلے دن صبح ناشتے کے بعد داور ، گلزار بیگم کے کمرے میں آیا۔ صفدر علی شاہ بھی کمرے میں موجود تھے۔
وہ گلزار بیگم کے سامنے بیٹھا اور جھجکتے ہوئے بولا۔
" اماں سائیں ایک بات کرنی تھی آپ سے۔ "
" ایسی کیا بات ہے جس کو کہنے کے لئے داور علی شاہ کو اتنی تمہید باندھنی پڑھ رہی ہے۔ "
جواب صفدرعلی شاہ کی جانب سے آیا تھا۔
" وہ اماں سائیں اور بابا سائیں میں نے لڑکی پسند کرلی ہے۔ "
" ماں صدقے ! ماں قربان ارے تو یہ بہت خوشی والی بات ہے ۔۔ بتائو کون ہے ، رہتی کہاں ہے ، کیسی ہے۔ جلدی بتائو میں آج ہی رشتہ لے کر جائوں گی۔ "
گلزار بیگم کی تو دلی مراد بر آئی ، انہیں نے آگے بڑھ کر اسکا ماتھا چومتے ہوئے ایک ہی سانس میں انہوں نے اتنے سارے سوال پوچھ لئے۔
" ارے اماں سائیں سانس تو لیں سب بتاتا ہوں میں آپکو۔ میں نے خود اسے کل ہی دیکھا ہے مشعل کے کمرے میں۔ کالے رنگ کے کپڑوں میں۔ اچھا رکیں میں تصویر دکھاتا ہوں آپکو۔ "
یہ کہہ کر وہ ان کو موبائل میں تصویر دکھانے لگا ۔۔۔۔۔
" ارے! زوہا یہ تو۔ بڑی پیاری بچی ہے مجھے تو بہت پسند ہے ۔۔۔ زوار کے دوست فائز کی بہن ہے یہ۔ "
وہ اسے پہچانتی ہوئی بولیں۔
" بس ٹھیک ہے آج کا دن ہے تمہارے پاس گلزار۔ رشتہ لے جانے کی تیاری کر لو ہم کل ہی جائیں گے رشتہ لے کر۔ انگوٹھی بھی خرید لینا ہم کل ہی پہنا کر آئیں گے اسے۔ "
اب کی بار جواب صفدر علی شاہ کی جانب سے آیا تھا۔
" کیونکہ انکار کا جواز ہی نہیں۔ بلکہ وہ تو خود کو خوش قسمت جانیں گے ۔ جب ان کو پتا چلے گا کہ داور علی شاہ کے لئے ان کی بیٹی کو چنا گیا ہے۔ "
یہ کہہ کر انہوں نے داور کو گلے لگا لیا۔
" زرینہ ارے زرینہ۔ "
گلزار بیگم ملازمہ کو آواز دیتے ہوئے بولیں۔
" جی بی بی جی۔ "
زرینہ بوتل کے جن کی طرح نازل ہوئی۔
" جائو ! اللہ ڈنو سے کہہ کر صدقے کے بکروں کا انتظام کروائو۔ "
گلزار بیگم زرینہ کو ہدایت دیتے ہوئے بولیں۔
" جی بہتر۔ "
یہ کہہ کر زرینہ وہاں سے چل دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گلزار بیگم ، داور علی شاہ اور صفدر علی شاہ اس وقت اظہار صاحب کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔
اظہار صاحب اتنے بڑے لوگوں کی اپنے گھر میں موجودگی سے حیرت میں تھے۔
حال احوال کے بعد اظہار صاحب بولے۔
" خیریت اپ لوگ ہمارے غریب خانے پر تشریف لائے۔ "
" آج یہاں ہم کسی خاص مقصد سے آئے ہیں۔ "
صفدر علی شاہ بولے۔
"جی کہیئے۔ "
"پہلے آپ اپنی بیٹی زوہا کو یہاں بلالیں۔ "
" زوہا کو ! پر کیوں؟ "
" دراصل ہم اسی کے بارے میں بات کرنے کے لئے آئیں۔ "
" جائو نسرین زوہا کو بلائو۔ "
اظہار صاحب نسرین بیگم سے بولے۔
" جی۔ "
یہ ایک لفظ کہہ کر نسرین بیگم زوہا کو بلانے چلدیں۔ تھوڑی دیر بعد زوہا نسرین بیگم کے ساتھ اندر داخل ہوئی۔
وہ بلیو جینز کے اوپر پنک گھٹنوں سے اوپر آتی چھوٹی سی فراک پہنے ہوئی تھی اور ریڈ دوپٹہ گلے میں مفلر کی طرح لپٹا تھا۔
جہاں وہ اس عام سے حلیے میں بھی داور کے دل کے تار چھیڑ گئی تھی وہیں صفدر علی شاہ کو اس کی ڈریسنگ قدرے نا گوار گزری تھی۔
پر وہ بیٹے کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور تھے۔
" یہاں آئو بیٹی میرے پاس بیٹھو۔ "
گلزار بیگم اپنے اور صفدر علی شاہ کے درمیان اس کے لئے جگہ بناتی ہوئی بولیں۔
زوہا نے ایک نظر ماں کو دیکھا اور ان کا مثبت اشارہ پا کر زوہا ان کے درمیان بیٹھ گئی۔
گلزار بیگم نے اس کے بیٹھنے کے بعد ڈبی سے ایک خوبصورت ہیرے کی انگوٹھی نکال کر زوہا کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں ڈال دی۔
ابھی وہ اور سامان دیتی کہ انوار صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور آگے بڑھ کر صفدر صاحب اور داور سے مصافحہ کیا وہ داور کو فائز کی وجہ سے جانتے تھے بولے۔
" جی کہیئے کیسے آنا ہوا۔ "
" ہم اپنے بیٹے داور علی شاہ کے لئے آپکی بیٹی زوہا کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں۔ "
صفدر علی شاہ نے ان کے سروں پر بم پھوڑا۔
" پر ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ "
انوار صاحب بولے۔
" کیوں آخر کیا کمی ہے میرے بیٹے میں ۔ ارے آپ کو تو خوش ہونا چاہیئے کہ اتنے بڑے گھر سے آپ کی بیٹی کے لئے رشتہ آیا ہے۔ "
صفدر علی شاہ ایک دم جلال میں آئے۔
" بابا سائیں آرام سے۔ "
داور نے انہیں کہا۔ حالانکہ اسے خود اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
" پہلی بات تو یہ کہ ہم خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتے اور دوسری بات زوہا میرے بیٹے کے ساتھ منسوب ہے اور بہت جلد ہم انکا نکاح کرنے والے ہیں۔ "
انوار صاحب نے کہا۔
" بس بابا سائیں چلیں۔ "
داور سے جب مزید سنا نہیں گیا تو وہ یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔
صفدر صاحب اپنے گارڈز کو داور کے پیچھے جانے کا اشارہ کرکے انوار صاحب کی جانب مڑے۔
اور بولے۔
" آپ نے صفدر علی شاہ کے لاڈلے بیٹے کا دل دکھایا ہے۔ اس بیٹے کا جس کی ہر خواہش میں نے اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے پوری کی ہے۔ آپ کو پچھتانا پڑے گا۔ میں مجبور کر دونگا آپ کو پچھتانے پر۔ "
یہ کہہ کر وہ نکلنے لگے کہ پیچھے سے انوار صاحب کی آواز آئی۔
" رکییے۔ "
اور پھر انہوں نے زوہا کی انگلی سے انگوٹھی اتا ری اور بولے۔
" یہ انگوٹھی اور اپنا سامان لے جائیے۔ "
وہ اس سامان جس میں مٹھائی کے ٹوکرے اور تحائف شامل تھے کی طرف اشارہ کر کے بولے۔
" ہم ایک دفعہ جو چیز دے دیں وہ واپس نہیں لیا کرتے۔ یہ ہمارے بیٹے کا صدقہ سمجھ کے ہم نے تمہیں دیا۔ "
یہ کہہ کر صفدر علی شاہ بغیر پیچھے مڑے باہر نکل گئے۔ گلزار بیگم بھی ان کے پیچھے باہر نکل گئیں۔
ان کے جانے کے بعد زوہا اپنے کمرے میں چلی گئی۔
پیچھے سے اظہار صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور پریشانی سے گویا ہوئے۔
" بھائی صاحب میرا دل بہت گھبرا رہا ہے بڑے لوگ ہیں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ "
تو انوار صاحب ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔
" پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، تم بس زوہا اور فائز کے نکاح کی تیاریاں کرو۔ جب نکاح ہو جائے تو کوئی کچھ نہیں کر پائے گا۔ "
" پر بھائی صاحب کیا فائز مان جائے گا۔ "
انہیں ایک اور فکر لاحق ہوئی۔
" اس بات کی ٹینشن نہ لو۔ اول تو فائز مان جائے گا اور اگر نہ مانا تو مائز ہے ناں۔ "
" شکریہ بھائی صاحب میرا اتنا ساتھ دینے کے لئے۔ "
" شکریہ کی بات زوہا میری بھی بیٹی ہے۔ بس اب جلدی سے نکاح کی تیاری کرو۔ تاکہ وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں "
" جی بہتر بھائی صاحب۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حویلی پہنچ کر وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
گلزار بیگم نے اسے روکنا چاہا تو اس نے نہایت ہی سرد لہجے میں بولا۔
" اماں سائیں مجھے کچھ وقت کے لئے اکیلا چھوڑ دیا جائے۔ "
اسکا لہجہ سن کر گلزار بیگم کچھ بولنے کی ہمت ہی نہیں جوڑ پائیں اس نے پہلی بار کسی سے اس لہجے میں بات کی تھی ۔
" شاہ جی کچھ کریں ورنہ میرا بچہ ٹوٹ جائے گا۔ "
گلزار بیگم روتی ہوئی بولیں۔
" تم فکر مت کرو میں نے سوچ لیا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ دولہن تو وہ داور علی شاہ کی ہی بنے گی۔ "
وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے جس بیٹے نے کبھی کسی عورت کی طرف میلی نگاہ نہیں اٹھائی ۔۔۔ اس نے اس لڑکی کی خواہش کی ہے تو وہ کس حد تک سنجیدہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں آتے ہی اس نے اپنا ضبط کھودیا سب سے پہلے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے برانڈڈ پرفیومز کو ہاتھ مار کر گرادیا۔
جب اس سے بھی غصہ کم نہ ہوا تو ٹیبل پر رکھا واز اٹھا کر ڈریسنگ کے شیشے پر مارا ایک چھن سے شیشہ ٹوٹ کر نیچے بکھر گیا۔
اس کے بعد کمرے کی ساری چیزیں ایک ایک کرکے توڑنے کے وہ تھک کر نیچے زمین پر بیٹھ گیا بیڈ سے ٹیک لگا کر۔
کہ یکدم موبائل فون کی آواز نے کمرے کی خاموشی میں ارتعاش سا پیدا کر دیا۔
پہلے تو اس کا جی چاہا کہ فون نہ اٹھائے پر کچھ سوچ کر اس نے اٹھالیا۔
تو دوسری طرف اس کا دوست سجاول تھا جو کہ ایک عیاش وڈیرا تھا۔
دنیا کی ہر برائی موجود تھی اس میں۔ سجاول جیسے شخص کے ساتھ رہ کر بھی داور ہر قسم کی برائی سے دور تھا۔ آج محفل رکھی تھی سارے دوستوں نے ڈیرے پر داور کے رشتہ ہونے کی خوشی میں۔
" بولو سجاول۔ "
داور بھاری آواز میں گویا ہوا۔
" خیریت داور آج ڈیرے پر نہیں آئے تم؟ "
" ہاں وہ بس کچھ طبیعت اچھی نہیں تھی۔ "
" یار یہاں ہم تیرے رشتے کی خوشی میں محفل جمائے بیٹھے ہیں اور تو طبیعت خراب کر کے بیٹھا ہے۔ "
" بس ویسے ہی طبیعت کچھ عجیب ہو رہی ہے۔ "
" خیر ہے کونسا روگ لگ گیا میرے یار کو۔ ہمیں پتا چلے تو کچھ علاج کریں ہم "
" سجاول تیرے یار کے اس روگ کا کوئی علاج نہیں۔ "
" بھابھی کی طرف سے انکار ہوگیا؟ "
وہ بھی اسی کا دوست تھا فورا داو ر کی نبض پکڑ لی۔
" پریشان کیوں ہو رہا ہے بول تو ڈھیر لگا دوں گا تیرے قدموں میں ایسی ہزار لڑکیوں کا۔ "
" نہیں سجاول مجھے چاہ نہیں ہے ہزار لڑکیوں کی۔ "
" آہ !! سمجھ گیا سمجھ گیا۔ عشق کا روگ لگا بیٹھا ہے میرا یار۔ یہ عشق کا نشہ تو جام خاص ہی سے اترے گا۔ "
وہ داور کے بکھرے لہجے سے اندازہ لگاتا ہوا بولا۔
" سجاول اس سے نشہ اترے گا نہیں چڑھے گا "
وہ منکر ہوا۔
" ارے ارے سائیں جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے ایسے ہی نشہ نشے کو کاٹے گا۔ "
" اگر ایسا ہے تو بھیج دے دوا سجاول۔ "
آخر کار گھٹنے ٹیک دیئے گئے تھے۔
" جو حکم سائیں ابھی بھجواتا ہوں۔ اعلی اور نایاب قسم بھیجوں گا۔ "
یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔
ابھی اسے فون رکھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ دروازہ بجا۔
" آ جائو۔ "
اس نے اجازت دی۔
دروازہ کھلا اور اس کا ملازم خاص اندر آیا۔
"بولو۔ "
اس نے اپنی لہو رنگ آنکھیں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
" سائیں یہ سجاول سائیں کی طرف سے تحفہ ہے ان کی ہدایت تھی کہ آپکو ابھی پہنچایا جائے یہ اسی لئے آگیا۔ "
اس نے ڈرتے وضاحت دی اصل میں وہ اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر ڈر گیا کیونکہ ابھی کسی کو داور کے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ ابھی بھی وہ سجاول کے ملازم کے کہنے پر ڈرتے ڈرتے اندر آیا تھا۔
یہ وہ داور تھا جس نے کبھی ملازموں سے غصے میں بات نہیں کی تھی۔
سب ملازمین اپنے جان سے پیارے مالک کی یہ حالت دیکھ کر پریشان تھے۔
" کسی کو پتا تو نہیں چلا۔ "
داور نے اپنی بھاری آواز میں پوچھا۔
" نہیں سائیں۔ "
" ٹھیک ہے پتا چلنا بھی نہیں چاہیئے۔ "
بظاہر لہجہ عام سا تھا پر انداز بہت کچھ باور کرانے والا تھا۔
" جج۔جی سائیں "
ملازم ہکلاتا ہوا بولا۔
داور کے اشارہ کرنے پر وہ چلا گیا۔
داور نے ہاتھ بڑھا کر پیکٹ اٹھایا۔
اس میں سے بوتل نکالی اور ڈھکن کھول کر بوتل سیدھا منہ سے لگا لی اور بغیر زائقے کی پرواہ کئے پی گیا۔
آج پہلی دفعہ اس نے یہ حرام شے منہ کو لگائی۔
بس پھر کیا تھا اپنا درد کم کرنے کے چکر میں وہ جام پہ جام چڑھاتا مدہوش ہوتا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انوار صاحب نے فائز کو فون لگایا۔ دو تین بیلوں کے بعد فون اٹھالیا گیا۔
" بابا سب خیریت آپ نے فون کیا۔ "
فائز کی پریشان سی آواز اسپیکر میں ابھری کیونکہ انوار صاحب انتہائی ضرورت کے وقت ہی فائز کو فون کرتے تھے۔
" تم اسی ٹائم گھر پہنچو۔ "
انوار صاحب بولے۔
" پر بابا اس ٹائم تو میں ہاسپیٹل میں ہوں سب خیریت؟ "
" ہاں تم گھر پہنچو پھر بات ہوتی ہے۔ "
" ٹھیک ہے بابا میں آتا ہوں۔ "
۔۔۔۔ پھر وہ چالیس منٹ کا راستہ بیس منٹ میں طے کرکے گھر پہنچا اور گھر میں داخل ہو کر بھاگتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا۔
" ماما !!! بابا کہاں ہیں۔ "
اس نے عائلہ بیگم سے پوچھا۔
" اپنے کمرے میں۔ "
ان کا جواب سن کے انوار صاحب کے کمرے کی طرف آیا اور دستک دے کر اندر داخل ہوا۔
" جی بابا بلایا آپ نے۔ "
" ہاں آئو ادھر بیٹھو۔ "
پھر انہیں نے آج ہونے والی ساری بات اس کے گوش گزار دی۔
" ان کی ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر میں کھڑے ہو کر ہم ہی کو دھمکی دینے کی۔ چھوڑونگا نہیں میں انہیں۔ اور زوار اس نے مجھے بتایا بھی نہیں اتنی بڑی بات ہو گئی۔ "
فائز ساری بات سن کر ایک دم غصے میں آگیا۔
" فائز یہ ٹائم جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا ہے۔ اس لئے ہم نے طے کیا ہے ہم تمہارا اور زوہا کا نکاح کروا دیں۔ بولو تمہیں منظور ہے؟ "
" مم۔۔میرا اور زوہا کا نکاح؟ "
فائز کا سارا غصہ انوار صاحب کی یہ بات سن کر اتر گیا تھا۔
" بولو تمہیں منظور ہے یا نہیں ورنہ ہم مائز سے بات کریں۔ "
" نہیں نہیں میں راضی ہوں۔ "
فائز جلدی سے بولا۔
فائز کی جلدبازی دیکھ کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی جسے وہ رخ موڑ کر چھپا گئے اور مطمئن انداز میں گویا ہوئے۔
" ٹھیک ہے اب تم جائو "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انوار صاحب اور اظہار صاحب دونوں اس وقت زوہا کے کمرے میں اس سے بات کرنے کے لئے موجود تھے۔
" زوہا بیٹا جو بات میں اس وقت تم سے کرنے جا رہا ہوں وہ غور سے سننا۔ اور مجھے یقین ہے کہ تم میرا مان رکھوگی۔ "
اظہار صاحب کے انداز پر زوہا کا دل یک دم بہت زور سے دھڑکا۔
پر وہ خود کو کمپوز کرتی ہوئی بولی۔
" بابا آپ کو جو بات کرنی ہے کھل کر کریں۔ "
" بیٹا جس طرح کے حالات ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک فیصلہ لیا ہے کہ تمہارا اور فائز کا نکاح کردیا جائے۔ "
" پر بابا میں ابھی پڑھنا چاہتی ہوں۔ "
" ابھی صرف نکاح ہو گا رخصتی نہیں۔ اور تمہاری پڑھائی پر کوئی پابندی نہیں ہوگی اس بات کی میں ضمانت دیتا ہوں۔ "
جواب انوار صاحب کی جانب سے آیا۔
" پر بڑے بابا کیا نکاح کرنا ضروری ہے؟ "
" بیٹا حالات کا تقاضا ہی یہی ہے۔ "
" ٹھیک ہے پھر جیسا آپ کو صحیح لگے۔ "
اس کی بات پر خوش ہو کر دونوں نے باری باری اسے گلے لگا کر پیار دیا۔
اظہار صاحب بولے۔
" مجھے پتا تھا میری بیٹی میری بات سے اختلاف کر ہی نہیں سکتی۔ "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔