"داور ۔۔۔۔۔ "
داور جو عجلت میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔ گلزار بیگم کی آواز پر ان کی طرف مڑا ۔۔۔۔۔
"جی اماں سائیں بولیں ۔۔۔۔۔۔ "
"داور ساری تیاریاں مکمل ہیں ناں دیکھو کوئی کمی نہ رہ جائے ۔۔۔۔۔"
گلزار بیگم متفکر سی بولیں۔۔۔۔
"اماں سائیں کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ۔۔۔میری لاڈلی بہن کی منگنی ہے بھلا میں کوئی کمی رہنے دے سکتا ہوں ۔۔۔۔"
داور نے کہا
"مجھے پتا ہے بیٹا پر بیٹی کی ماں ہوں نہ پریشانی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔ گلزار بیگم نے جواب دیا ۔۔۔۔۔ "
"اماں سائیں آپ ٹینشن نہ لیں ان شا اللہ سب اچھا ہو جائے گا ۔۔۔۔"
داور نے انہیں تسلی دی ۔
" ان شا اللہ اور تم جا کر جلدی سے مشعل (داور کی بہن ) کو پارلر سے لے آئو پہلے ہی تمہارے بابا نے اتنی مشکل سے پارلر جانے کی پرمیشن دی تھی ۔ اگر دیر ہو گئی تو وہ غصہ کریں گے اور تم تو جانتے ہی ہو ان کے غصے کو ۔۔۔۔"
گلزار بیگم پریشانی سے گویا ہوئیں ۔۔۔۔
" جی اماں سائیں میں تیار ہو جائوں پھر جا رہا ہوں آ کر مجھے ٹائم نہیں ملے گا ویسے بابا سائیں ہیں کہاں ۔۔۔۔۔"
داور نے انہیں جواب دیتے ہوئے سوال کیا ۔۔۔۔۔
"وہ بھی تیار ہونے گئے ہیں اب تم بھی دیر نہ کرو "
گلزار بیگم نے جواب دیتے ہوئے اسے ہدایت کی ۔۔۔۔۔۔۔
" جی اماں سائیں "
یہ کہہ کر داور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا
اور گلزار بیگم بھی ملازموں سے کہہ کر بقیہ کام ختم کروانے لگیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زوہا اگر تم تیار ہو تو چلیں فائز بھائی باہر ویٹ کر رہے ہیں" ۔۔۔۔۔۔۔۔
رمشا زوہا کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔
"ہاں میں تیار ہوں" ۔۔۔۔۔
زوہا کان میں جھمکا ڈالتی ہوئی بولی ۔۔۔۔
"ارے ارے زوہا تھوڑا رحم ۔۔۔۔!!!! کیوں لوگوں کو قتل کرنے پر تلی ہوئی ہو تم ۔۔۔
رمشا نے اس کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے اسے چھیڑا ۔۔۔۔
بلیک کلر کی گھٹنوں تک آتی انگرکھا فراک ، بلیک پاجامہ اور بلیک ہی بڑا سا دوپٹہ ایک کندھے پر ڈالے ، لمبے بال کھلے ہوئے ، دودھیا سفید پائوں میں بلیک کھسے پہنے ، نفاست سے کئے میک اپ میں بہت حسین لگ رہی تھی ۔
"کم تو تم بھی نہیں لگ رہی "
زوہا نے رمشا کو کہا جس نے بالکل زوہا جیسی ڈریسنگ کی ہوئی تھی بس کپڑوں کا کلر مختلف تھا ۔ زوہا کے بلیک جبکہ رمشا کے وائٹ تھے ۔ وہ دونوں بچپن ہی سے سیم ڈریسنگ کرتی آئیں تھیں ۔
رمشا بھی ان کپڑوں میں بہت جچ رہی تھی ۔
ابھی وہ باتوں میں مصروف تھی کہ نسرین بیگم آئی اور بولی
" لڑکیوں جلدی کرو فائز غصہ کر رہا ہے "
"اوہ نو ۔۔۔!!!!"
رمشا سر پر ہاتھ مارتی ہوئی بولی ۔۔۔
" فائز بھائی نے مجھے تمہیں لانے بھیجا تھا اور میں باتوں میں لگ گئی میں جا رہی ہوں تم آجائو"
کہہ کر جلدی سے باہر بھاگی۔۔۔۔۔۔
زوہا نے بھی جلدی سے بالوں میں برش پھیرا ۔
"امی میں جارہی ہوں"
کہہ کر باہر کی جانب بھاگ گئی ۔۔۔۔۔
" آرام سے زوہا ۔۔۔ ان دونوں کا پتا نہیں کیا بنے گا ۔۔۔۔ "
زوہا بھاگتی ہوئی آئی اور بیک ڈور کھل کر گاڑی میں بیٹھ گئی
اور بولی ۔۔۔
" چلیں فائز بھائی "
فائز نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا تو نظر جھکانا بھول گیا اور یک ٹک اسے دیکھے گیا
کہ آگے بیٹھی رمشا نے اسکا کندھا ہلایا اور کہا
" چلیں بھائی ۔۔۔۔"
" آہ ۔۔۔ ہاں "
فائز ہڑبڑا کر ہوش میں آیا اور گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا ۔۔۔
زوہا بھی سر جھٹک کر باہر دوڑتے مناظر کی طرف متوجہ ہو گئی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور مشعل کو پرلر سے حویلی لے کر آگیا تھا اسے اس کے کمرے میں بٹھا کر کمرے سے جانے لگا کہ وہ اس سے لپٹ کر زار و قطار رو دی ۔۔۔
"مشعل !! میری جان کیا ہوا ایسے کیوں رو رہی ہو پاگل آج صرف منگنی ہے تمہاری رخصتی نہیں شاباش چپ ہو جائو ۔۔۔۔۔ "
وہ اسے پچکارتے ہوئے بولا ۔۔
" بھائی مجھے نہیں کرنی کوئی منگنی ۔۔۔۔۔"
مشعل روتے روتے بولی ۔۔۔۔۔
" ارے کیوں نہیں کرنی "
داور نے پوچھا ۔۔۔۔۔
" کیوں کہ آپ لوگ مجھے خود سے دور کر دیں گے "
" چلو تمہارے لئے گھر جمائی رکھ لیں گے تمہارے والا تو یہ بھی کر لے گا بس بابا سائیں کو راضی کرنا تمہارا کام ہے "
وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
" بھھھھھھھا ئئ "
مشعل چلا کر بولی ۔۔۔۔۔
"اچھا اب رونا بند کرو اتنے پیسے خرچ کر کے تم کو خوبصورت بنوایا تھا رو رو کر سارا میک اپ دھو دو گی اور واپس تمہارا چڑیل روپ باہر آ جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ "
"جائیں بھائی مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی ۔۔۔۔۔"
مشعل نروٹھے انداز میں بولی ۔۔۔۔۔
"اچھا اچھا سوری ناراض مت ہو ہو ۔۔۔۔۔ "
داور اسے مناتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
" جائیں معاف کیا ۔۔۔ کیا یاد رکھیں گے ۔۔۔۔"
مشعل احسان کرنے والے انداز میں بولی ۔۔۔۔۔۔۔
" اچھا میں جا کر کام دیکھوں ورنہ بابا سائیں مجھے الٹا لٹکا دیں گے ۔۔۔۔ "
داور اسے ہنسانے کی خاطر بولا ورنہ صفدر علی شاہ کی جان تھی اپنے بیٹے میں ۔۔۔۔
بچپن میں اگر اسے چھینک بھی آجاتی تھی تو وہ ڈاکٹروں کی فوج کھڑی کر دیتے تھے ۔
جس چیز پر وہ ہاتھ رکھ وہ اسے دلانا اپنا فرض سمجھتے تھے پر ان سب آسائیشوں کے باوجود بھی وہ بگڑا نہیں تھا ۔۔۔۔۔
اس میں روایتی جاگیرداروں والی کوئی بات نہیں تھی ۔۔۔۔۔ اس نے ہمیشہ عورت ذات کی عزت کی تھی ۔۔۔۔۔۔
"پر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے باپ کی محبت اس کی زندگی میں کیا طوفان لانے والی تھی ۔۔۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"زوہا یہاں سب ارینجمنٹ کتنی اچھی کی گئیں ہیں مجھے تو یقین نہیں ہو رہا کہ یہ کسی گاوں کا فنکشن ہے ۔۔۔۔ "
رمشا کھوئے ہوئے انداز میں بولی ۔۔۔۔
فنکشن حویلی کے لان میں منعقد کیا گیا تھا ۔۔۔۔ پورا نہایت ہی خوبصورتی سے پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔۔ جا بجا لگی اسپاٹ لائٹ سے رات دن کی طرح روشن ہو گئی تھی۔۔۔
کہ زوہا نے اس کے بازو پر چٹکی بھری۔۔۔۔۔۔
" آہ ۔۔! زوہا کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔ "
اس نے اپنا بازو سہلاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔۔
"تمہیں یقین دلا رہی ہوں کہ یہ واقعی گائوں ہی کا فنکشن ہے ۔۔۔۔۔"
" کیا یار ۔۔۔۔۔ "
ابھی الفاظ اس کے منہ میں تھے کہ زوہا اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی ۔۔۔
" یار فائز بھائی تو ہمیں یہاں چھوڑ کر اپنے دوست کے ساتھ مصروف ہو گئے ہیں ہم تو یہاں کسی کو جانتے بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔"
" کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو پر زوہا یہ گائوں ہے یہاں مکس گیدرنگ ممنوع ہے اسی لئے تو بھائی ہمیں یہاں لائے ہیں "
ابھی وہ باتوں میں مصروف تھی کہ ایک باوقار سی خاتون ان کے نزدیک آئی اور ان سے پوچھا ۔۔۔۔۔
" آپ دونوں غالبا فائز کی بہنیں ہیں ناں ؟؟؟"
" جی "
زوہا نے مختصر جواب دیا ۔۔۔۔
"میں زوار کی والدہ ہوں آئیں میں آپکو زوار کی ہونے والی بیوی سے ملوائوں " یہ کہہ کر وہ ان کو لے کر حویلی کی جانب بڑھ گئیں ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ان کو لے کر مختلف راہداریوں سے ہو کر اندر کی جانب بڑھ رہی تھیں ۔۔۔
آگے آگے نجمہ بیگم (زوار کی والدہ) چل رہیں تھیں ۔۔
راستے میں ان کو بہت سی ملازمائیں کام کرتی ہوئی نظر آئیں ۔۔۔
" رمشا یہ حویلی ہے یا کوئی محل ؟؟؟؟؟ "
زوہا نے رمشا کے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔۔
" مجھے تو لگ رہا ہے بھول بھلیا ہے کوئی مجھے تو راستہ بھی یاد نہ ہو ایک دفعہ میں ۔۔۔۔ "
رمشا نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا ۔۔۔۔
اس سے پہلے زوہا جواب دیتی۔۔۔۔۔۔
نجمہ بیگم ایک کمرے کا دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔
" یہ زوار کی منگیتر ہے مشعل اور مشعل یہ جو زوار کا شہر والا دوست ہے نا فائز اس کی بہنیں ہیں ۔۔۔۔۔"
نجمہ بیگم نے بیڈ پر بیٹھی خوبصورت سی لڑکی سے ان کا تعارف کرواتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔۔
جو پستہ رنگ کی میکسی زیب تن کئے ہوئے تھی اور بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
زوہا اور رمشا نے مشعل سے مصافحہ کیا ۔۔۔۔۔۔
اور پھر وہ باتوں میں مصروف ہو گئی ۔۔۔۔۔
مشعل ایک زندہ دل اور خوش مزاج سی لڑکی تھی ۔۔۔۔
جلد ہی ان کی دوستی ہو گئی اور وہ یوں باتیں کر نے لگی جیسے پتا نہیں کب سے ایک دوسرے کو جانتی ہوں ۔
نجمہ بیگم انہیں باتیں کرتا ہوا چھوڑ کر باہر مہمانوں کے پاس چلی گئیں ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور حویلی کے اندر کسی کام سے داخل ہوا کہ گلزار بیگم نے اسے آواز دی ۔۔۔۔۔
"داور "
"جی اماں سائیں کوئی کام ہے کیا "
داور نے پوچھا ۔۔۔۔۔
" ارے تم کام وغیرہ کو چھوڑو اور میرے ساتھ آئو ۔۔۔۔۔۔ "
وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر حویلی کے اندر لے جانے لگی ۔۔۔۔۔۔
" ارے اماں سائیں کہاں لے جا رہی ہیں آپ مجھے "
داور نے پوچھا ۔۔۔۔
" نظر اتارنے کے لئے ۔۔۔۔ آج تو مجھے لگ رہا ہے میری ہی نظر لگ جائے گی تمہیں ۔۔۔۔ اور باہر تو پھر بہت سے حاسد موجود ہیں ۔۔۔۔۔ "
گلزار بیگم نے جواب دیا ۔۔۔۔
" ارے اماں سائیں اب ایسا بھی کوئی شہزادہ گلفام نہیں لگ رہا میں ۔۔۔۔۔ "
داور نے کہا ۔۔۔۔
حالانکہ آج سیاہ شلوار قمیص پہ اسکن کلر کی شال لئے وہ سب مردوں میں نمایاں تھا ۔۔۔
" اچھا اب نظر تو اتر گئی جائو جا کر مشعل کو لے آئو "
گلزار بیگم اس کی نظر اتارنے کے بعد بولی ۔۔۔۔۔
" جی بہتر اماں سائیں آپ چلیں میں مشعل کو لے کر آتا ہوں "
داور انہیں جواب دیتا ہوا مشعل کے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے کے باہر پہنچ کر اس نے دستک دی اور بائیں جانب دیکھتا ہوا دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ تینوں باتوں میں مصروف تھی کہ مشعل کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔۔۔۔
" زوہا پلیز تم دیکھ لو کہ دروازے پر کون ہے "
مشعل زوہا سے بولی ۔۔۔۔
" تو اس میں پلیز کی کیا بات ہے تم ویسے ہی بول دو میں کھول دوں گی دروازہ ۔۔۔۔۔ "
زوہا آٹھ کر دروازے کی جانب جاتی ہوئی بولی اور دروازہ کھول دیا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔