وہ فائل پہ دستخظ کر رہا تھا جب موبائل کی بپ سنائی دی، جیب سے نکال کر بنا سکرین پہ نگاہ ڈالے کان سے لگا لیا۔
ریحان کیسا ہے میری جان۔۔۔ میرے دل، میرے گردے میرے پھیپھڑے کیسا ہے تو جگر۔۔۔۔
علی کی آواز اسکے کانوں سے ٹکڑائی تو وہ پین چھوڑ کر سیدھا ہو بیٹھا کہ علی سے بات کرتے کوئی کام کیا ہی نہیں جا سکتا، کمینہ بولتا ہی اتنا ہے۔۔۔۔
میں ایک دم فٹ۔۔۔۔ اسنے مصنوعی بشاشت سے کہا۔
چل پھر ٹھیک ہے، تیری لئے میری سالی ٹھیک رہے گی،۔۔۔۔
اوو ہیلو، واٹ ڈو یو مین بائے۔۔۔۔۔ ریحان نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
مین وہی یار جو تو نے سمجھ لیا۔
مجھے تو معاف ہی رکھ، مجھ سے نہیں ہونے یہ چونچلے۔۔۔۔ ایک بات تو بتا، تجھے میں اپنی مرضی سے جیتا اچھا نہیں لگتا کیا، مرضی سے سونا جاگنا۔۔۔۔ اٹھنا بیٹھنا۔۔۔۔ بہت مست لائف جی رہا ہوں میں۔
تجھے پتہ نہیں کیا ہے، روز اک نیا رشتہ لے آتا ہے، بھائی مجھے کسی پنگے میں نہیں پڑنا۔ سمجھا تو۔۔۔۔
مرضی ہے تیری، ویسے میرا خیال ہے تو اک بار پھر سوچ لے، علی نے پھر کہا۔
اووو شٹ اپ یار۔ریحان نے تپ کر کہا۔
اوکے یار۔۔۔۔ چل پھر سی یو۔۔۔۔ ملیں گے گر زندگی رہی۔ علی کے کہنے پہ ریحان نے دل میں ان شا اللہ بولا۔
%%%%%%%%%%%
ریحان پودوں کو پانی دے رہا تھا اور موحد لان میں رکھے کرسی میز پہ کتابیں کھولے بیٹھا تھا، منہ لٹکا ہوا تھا، موڈ آف لگ رہا تھا، شاید ہوم ورک کرنے جو دل نہیں کر رہا تھا۔
کیا ہوا چاچو کی جان، پڑھنے کو دل نہیں چاہ رہا یا چاچو کی ہیلپ کی ضرورت ہے۔۔۔۔
موحد نے سر اٹھا کر ایک نظر ریحان پہ ڈالی اور پھر سر جھکا لیا۔
ریحان کے اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ لی تھی۔ وہ موحد کے پاس آ بیٹھا۔
کیا ہوا میری جان۔۔۔۔۔ پیار سے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔
چاچو آج مجھے عذیر ملا۔۔۔۔
اس نے خود کو رونے سے بمشکل روک رکھا تھا۔
تو۔۔۔۔ ریحان نے آبرو اچکائے۔
وہ بہت رو رہا تھا چاچو۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میری مما بیمار ہیں، کیا وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلی جائیں گی، چاچو اسکے تو بابا بھی نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی چاچو جو اسکا خیال رکھ سکیں۔
کیا ہوا ہے اسکی مما کو۔۔۔۔ ریحان کی دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔
پتہ نہیں۔۔۔۔ بس ٹھیک نہیں ہیں۔
اسکے بابا کہاں ہیں۔۔۔۔ بے قراری سے پوچھا گیا۔
فوت ہو گئے، اس نے اپنے بابا دیکھے ہی نہیں۔۔۔۔ موحد بتاتے ہوئے رو دیا۔
ریحان نے اسے اپنے ساتھ لگا کر بے تحاشا پیار کیا۔
کیا عذیر عائشہ کی ناجائز اولاد ہے،۔۔۔۔ پہلا خیال اسے یہی آیا۔۔۔۔ نہیں ایسی نہیں لگتی وہ۔۔۔۔ دل ماننے سے انکاری ہوا۔۔۔۔
عاۂشہ کی بیماری کا سن کر اسکا دل بے چین سا ہو گیا تھا۔
چاچو میں اور عذیر ایک دوسرے کے بیسٹ فرینڈ بن گئے ہیں، ہم ایک جیسے ہیں ناں۔۔۔۔اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا۔
ایک جیسے۔۔۔۔ مطلب؟ ریحان اسکی بات نہیں سمجھ سکا تھا۔
ایک جیسے۔۔۔۔ مطلب یتیم۔۔۔۔ ہم دونوں یتیم ہیں ناں۔۔۔۔ موحد نے اپنا سر پھر سے اسکے سینے پہ رکھ لیا۔
لفظ یتیم۔۔۔۔ ریحان کے دل کو چیر گیا تھا۔
نہیں ہو آپ یتیم۔۔۔۔ جن کے پاس پیار کرنے والے ہوں، وہ یتیم نہیں ہوا کرتے میری جان۔ کیا چاچو آپ کو پیار نہیں کرتے۔۔۔ بتاؤ۔۔۔۔۔
کرتے ہیں، بہت کرتے ہیں، آئی لو یو چاچو۔۔۔۔ موحد اس سے لپٹ گیا تھا۔
%%%%%%%%%%%
گھنٹی دو بار بج چکی تھی، خالہ کے گھٹنوں میں بہت درد تھا، پچھلے کئی دنوں سے کام کاج بھی زیادہ کرنا پڑا تھا، بمشکل اٹھ کر دروازے تک پہنچیں۔
کون۔۔۔۔ انہوں نے آواز لگائی۔
ریحان۔۔۔۔ موحد کا چاچو۔۔۔۔ خالہ جان۔ ریحان خالہ کی آواز پہچان چکا تھا۔
دروازہ کھول کر انہوں نے بغور اسے دیکھا۔ کیا بات ہے بیٹا، عائشہ تو سکول گئی ہے،
اچھا۔۔۔۔ وہ مجھے پتہ چلا تھا کہ ان کی طبیعت کافی خراب ہے، عذیر بہت رو رہا تھا سکول میں۔۔۔۔ میں پریشان ہو گیا تو ملنے چلا آیا۔
اچھا کیا بیٹا۔
بس بخار ہو گیا تھا اسے، عذیر بچہ ہے ناں تو زیادہ پریشان ہو گیا، ویسے بھی بن باپ کے ہے تو ماں کی طرف سے کچھ زیادہ ہی حساس ہے، خالہ نے ریحان کو اندر آنے کا راستہ دیا۔
میں نے تو بہت بار کہا ہے کہ چھوڑ دو یہ نوکری۔۔۔۔ دفع کرو، مت کرو اتنی محنت۔ اسکی خالو کی اتنی پنشن آ جاتی ہے کہ ہم تین فرد دو وقت کی عزت کی روٹی کھا لیا کریں، پر وہ ماں ہے ناں۔۔۔۔ اپنے بیٹے کو اچھے سکول میں پڑھانا چاہتی ہے، افسر بنانا چاہتی ہے۔۔۔۔۔ یہ الگ بات کہ ماؤں کے پت نکمے نکل آئیں، بعد میں پوچھیں بھی ناں۔۔۔۔ خالہ نے ہنکارا بھرا۔
خالہ ایک بات پوچھوں۔
ہاں پوچھو بیٹا۔
عزیر کے بابا کہاں ہیں۔۔۔۔ ریحان نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
خود تو مر گیا بڈھا اور میری معصوم بچی کے لیے آزمائشوں کے پہاڑ چھوڑ گیا۔
اب تمہیں کیا بتاؤں بیٹا، میری عائشہ نے بہت دکھ سہے ہیں۔
چھوٹی عمر میں ہی یتیم ہو گئی تھی میری بچی،اسکی ماں بیٹی سمیٹ ، بیٹے اور بہو کے رحم وکرم پہ آ گئی، اسکا بھائی رن مرید، جانے کہاں سے لے آیا تھا اک چڑیل، بیوی کے سامنے اسے کچھ نظر نہیں آتا تھا وہ جیسے کہتی، وہ ویسے ہی ناچتا۔
ماں بہن اسکے گھر میں نوکرانی سے زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھیں۔ میری سہیلی اکثر میرے ساتھ دل کا بوجھ ہلکا کر لیا کرتی۔
عائشہ ابھی اٹھارہ سال کی بھی نہ ہوئی تھی کہ اسکی بھابھی اپنے تایا کا رشتہ لے کر آ گئی، اس رنڈوے کی جوان اولاد تھی، عائشہ سے بڑی عمر کے تو اسکے اپنے بچے تھے، بڈھے کی مرنے کی عمر تھی پر وہ شادی رچانے چلا۔
میری سہیلی نے بیٹے کے آگے ہاتھ جوڑے، بہت منتیں کیں کہ بہن پر اتنا ظلم نہ کرو، چاہے کنواری بیٹھائے رکھو پر یہ رشتہ نہ کرو پر وہ کہاں ماننے والا تھا، اسکی بیوی زبان دے چکی تھی۔
نہایت سادگی سے عائشہ کو رخصت کر دیا گیا، اسی رات میری سہیلی دنیا سے منہ موڑ گئی، رات سوئی، صبح آنکھ نہیں کھولی۔
عائشہ بیچاری تو دکھ سے ادھ موئی ہو گئی۔۔۔۔ پے در پے غموں نے اسے بد حواس سا کر دیا۔
میں نے تب اسے بہت مشکل سے سنبھالا۔
بھائی کو تو پرواہ ہی نہ تھی جیتی ہے تو جئے، مرتی ہے تو مرے۔
چھ ماہ بعد وہ بڈھا بھی مر گیا، عذیر کی پیدائش اسکے مرنے کے بعد ہوئی۔
شوہر کے مرنے کے بعد عائشہ اپنے گھر میں ہی رہی، وہاں نہ رہتی تو کہاں جاتی۔
اسکا جوان سال بیٹا بھی اسی گھر میں ہی رہتا تھا، اسکی کوشش تھی کہ عائشہ اپنے حصے سے دستبردار ہو جائے۔ اس نے عائشہ پہ بری نظر بھی رکھنا شروع کر دی۔ عائشہ کا جینا دوبھر ہو گیا۔
ایک رات بارہ بجے یہ میرے گھر چلی آئی، چھوٹا سا عذیر چادر میں چھپا رکھا تھا، اسے اپنی جان اور عزت کا خوف تھا، اسکا اب وہاں رہنا کسی طور خطرے سے خالی نہ تھا۔ اس بڈھے کا بیٹا علاقے کا بہت بڑا غنڈہ بھی تھا۔ عائشہ نے بیٹے کا حصہ چھوڑ دیا، عزت بچا لی کہ عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
ہم دونوں راتوں رات وہاں سے نکل آئے، اور یہاں آ بسے۔ پھر کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔ یہاں کے لوگ بہت اچھے کہ ہر طرح سے مدد کی، عزت دی۔ ہر مشکل وقت میں ساتھ دیا۔
خالہ نے عینک ہٹا کر اپنی آنکھیں صاف کیں۔
ریحان اپنی جگہ چھوڑ کر خالہ کے قدموں میں آ بیٹھا۔
ارے یہ کیا کر رہے ہو بیٹا، یہاں اوپر بیٹھو میرے ساتھ، خالہ نے گبھرا کر کہا۔
نہیں خالہ، مجھے یہاں ہی رہنے دیں، خالہ میرے ماں باپ بہن بھائی کوئی بھی نہیں، موحد کے علاوہ میرا سگا کوئی بھی نہیں،
جو کہنا ہے مجھے خود ہی کہنا ہے، جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے، شاید آپ کو میری باتیں بری لگیں، پر میں مجبور ہوں، اس دل کے ہاتھوں۔۔۔۔
ریحان نے خالہ کا ہاتھ مس
مضبوطی سے تھام لیا۔
خالہ میں عائشہ کو پسند کرنے لگا ہوں، میں آپ سے اسکا ہاتھ مانگنا چاہتا ہوں، پلیز خالہ انکار مت کیجیے گا اور نہ ہی اس پگلی کو انکار کرنے دیجیے گا۔۔۔۔
خالہ یہ میرا وعدہ ہے کہ میں اسے اتنا خوش رکھوں گا کہ اسے ماضی بھی یاد نہیں رہے گا۔
عذیر مجھے ویسے ہی بہت پیارا ہے اپنے موحد کی طرح، میں اسے بخوشی اپنا نام دوں گا۔۔۔۔
پلیز خالہ میرے حصے کی خوشیاں میرے جھولی میں ڈال دیں۔
خالہ نے پیار سے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اسکی پیشانی چوم لی۔
تمہاری آنکھوں میں عائشہ کے لیے محبت میں نے پہلے دن ہی دیکھ لی تھی، دل میں خواہش جاگی تھی کہ تم اسے اپنا لو، پر بیٹا اس بات سے ڈر گئی تھی کہ تم امیر کبیر لوگ محبتیں بھی لباس کی طرح بدلتے ہو، میری عائشہ میں اب پھر سے کوئی دکھ سہنے کی ہمت نہیں ہے، اب کہ ٹوٹی تو پاش پاش ہو جائے گی، پھر کبھی سمیٹی نہ جائے گی، جی نہ پائے گی۔۔۔۔ بس اسی خوف نے مجھے۔۔۔ اس خیال سے باز رکھا۔
خالہ کہ آنکھوں میں اک بار پھر آنسو امڈ آئے۔
نہیں خالہ۔۔۔ آپ جس سے چاہے میرے بارے میں پوچھ سکتی ہیں، میں عرصہ دس سال سے ایک ہی جگہ ایک ہی گھر میں رہ رہا ہوں، میرے بارے میں کسی سے کوئی غلط بات سننے کو نہیں ملے گی آپ کو، میں اپنے بارے میں عائشہ کو سب بتا چکا ہوں، میرے ماضی میں آپ کو کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ملے گا۔۔۔۔۔
خالہ پلیز کوئی وہم نہ پالیں۔۔۔ ریحان نے اپنا سر خالہ کی گود میں رکھ دیا۔
قریب کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو سر اٹھا کر دیکھا، عائشہ دروازے میں کھڑی سب دیکھ اور سن رہی تھی،
خالہ بھی اسی کو تک رہیں تھیں۔۔۔
عائشہ کی آنکھوں میں نمی پر لبوں پہ دبی دبی سی مسکراہٹ تھی۔
خالہ نے مسکرا کر ریحان کے سر پہ ہاتھ رکھ دیا۔
اسکا دل بلیوں اچھلنے لگا، امید نہ تھی کہ سب اتنی آسانی سے ہو جائے گا۔ کبھی کبھی اللہ کتنے قریب سے سنتا ہے۔
ریحان نے پھر سے اپنا سر خالہ کی گود میں رکھ دیا۔
%%%%%%%%%%%%
عذیر اور موحد بیٹا اب شام ہونے کو ہے میرے بچو، کھیل کود چھوڑو اور باہر آ جاؤ، میں کھانا لگوانے لگی ہوں، خالہ نے آواز دی۔
موحد عذیر کو اپنے کھلونے دکھا رہا تھا اور وہ بہت اشتیاق سے دیکھ رہا تھا، یہ سب آج سے تمہارے ہیں، میں تو اب بڑا ہو گیا ہوں ناں، تم یہ سب اپنے کمرے میں لے جاؤ۔
موحد نے بڑے پن سے کہا۔
بھیا کیا میں آپ کے کمرے میں نہیں رہ سکتا، دیکھو اتنا بڑا بیڈ ہے۔۔۔۔ ہم دونوں سو جائیں گے۔۔۔۔ ڈر بھی نہیں لگے گا، عذیر کے کہنے پہ موحد سوچ میں پڑ گیا۔
پر میں تو چاچو کے ساتھ سوتا ہوں، پر اب تو وہاں میم عائشہ سوئیں گی، چلو ٹھیک ہے، ہم دونوں یہاں سو جائیں گے، ڈر بھی نہیں لگے گا، موحد نے آنکھ میچ کر کہا تو دونوں کا قہقہہ نکل گیا۔
دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے باہر نکل آئے کہ خالہ بی اک بار پھر پکار چکی تھیں۔
%%%%%%%%%%%%
وہ بیڈ پہ بیٹھی کمرے کی ہر چیز کا جائزہ لے رہی تھی، کمرہ بھی جہازی سائز کا، اور پھر دیکوریشن، اور قیمتی اور نفیس سامان یہاں رہنے والے کے اعلٰی ذوق کا پتہ دے رہا تھا۔
دروازے کے کھلنے کی آواز پہ وہ سیدھی ہو بیٹھی۔
ریحان کھنکارتا ہوا اندر داخل ہوا۔
السلام علیکم،
عائشہ نے دھیرے سے جواب دیا۔۔۔۔ وعلیکم السلام۔
وہ پاس آ بیٹھا، جیب سے نازک سا بریسلٹ نکال کر اسکی کلائی میں ڈال دیا۔
آپ کی چوائس بہت خوب ہے،
عائشہ نے اک نظر اپنی کلائی پہ ڈال کر کہا۔
یہ بات آپ نے آئینہ دیکھنے کے بعد تو نہیں کہی، سامنے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف اشارہ کر کے کہا گیا۔عائشہ نے آئینے میں اپنا روپ دیکھا تومسکرا کر رہ گئی۔
آج تم سے بہت باتیں کرنی ہیں، یہ باتیں تو پہلے ہی کر لینی تھیں پر وقت ہی نہیں ملا، سب کچھ اتنی اچانک، ہو گیا۔
وہ عائشہ کا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا۔
پتہ ہے، مجھے پہلی نظر میں ہی تم اچھی لگنے لگی تھی، یاد ہے وہ ہماری پہلی ملاقات۔۔۔۔ وہ سکول میٹنگ۔۔۔۔۔ ریحان نے یاد کروایا۔ وہ کنفیوز ہوتی عائشہ سیدھا میرے دل میں اتر گئی تھی۔
میرے بھی۔۔۔۔۔ عائشہ بے خودی میں کہہ گئی۔
او سچی۔۔۔۔۔۔ ریحان نے اسکی بات پکڑ لی۔
وہ شرم سے نظریں ہی نہ اٹھا پا رہی تھی۔
تم بہت بری ہو، میں نے تمہیں اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا پر تم مجھے صرف اشارہ دے کر سائڈ پہ ہو گئی، عذیر تمہارا بیٹا ہے۔
ساری بات تو سنائی ہوتی، میں نے وہ دن کس اذیت میں گزارے کچھ اندازہ ہے تمہیں،
ہاں ہے اندازہ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میں بھی اسی اذیت سے گزری ہوں۔۔۔۔ عائشہ کے لہجے میں افسردگی عود آئی۔
اچھا چھوڑو ان باتوں کو، یہ گلے پھر کسی وقت پہ اٹھا رکھتے ہیں ابھی ہم اچھی اچھی باتیں کریں گے، دل کی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرف دھند بادل یا دھواں۔۔۔۔ جانے کیا تھا، کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، وہ پریشان حال سی کھڑی تھی، اسے مدد درکار تھی پر کون تھا، کوئی تھا ہی نہیں۔۔
اتنے میں اسے گھوڑے کی تاپ کی آواز سنائی دینے لگی، ایک طرف سے شہزادہ آتا دکھائی دیا، قریب آ کر وہ اپنے گھوڑے سے اتر آیا۔۔۔۔۔ آ کر بنا کچھ کہے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسکا ہاتھ تھام لیا، اور اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکا ہاتھ لبوں سے لگا لیا۔
عائشہ اک جھٹکے سے سیدھی ہو بیٹھی۔۔۔۔۔۔۔ اسکی سانس بے ترتیب تھی۔۔۔۔۔ دل کی دھڑکن بہت تیز ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
اک لمحہ تو اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ کہاں ہے۔
پھر دیکھا تو وہ ریحان کے کمرے میں عجلہ عروسی میں۔۔۔۔۔
ریحان قریب سو رہا تھا اور وہ بیڈ کی بیک سے ٹیک لگائے سوئی ہوئی تھی، جانے کب باتیں کرتے کرتے وہ نیند کی وادی میں اتر گئی، خبر ہی نہ ہوئی۔
وہ ریحان کے قریب ہو گئی، وہ سوتے میں اور بھی زیادہ معصوم لگتا تھا، عائشہ نے اسکی پیشانی کے بال ہٹائے، اسکے چہرے کو غور سے دیکھا تو شہزادے کی شبیہ اک جھپاکے سے اسکے سامنے آ موجود ہوئی۔۔۔۔۔۔
شہزادہ۔۔۔۔ ہوبہو ریحان جیسا تھا یا ریحان شہزادے جیسا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اووو میرے اللہ۔۔۔۔۔۔ یہ تو میرے سپنوں کا شہزادہ ہی ہے، عائشہ بے اختیار کہہ بیٹھی۔
اگلے لمحے عائشہ کا ہاتھ ریحان کے ہاتھ میں تھا اور وہ اسے اپنے لبوں پہ رکھ چکا تھا۔
عائشہ نے بمشکل اپنی دھڑکنوں کو سنبھالا اور مسکرا کر اپنا سر اسکی کشادہ چھاتی پہ رکھ دیا۔
ختم شد