موحد وقار کیا کر رہا ہے۔۔۔۔ ریحان نے اسکے پیشانی چوم کر پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
موحد جو کہ ریموٹ ہاتھ میں پکڑے کارٹون چینل سرچ کر رہا تھا۔۔۔ نے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو، چاچو نظر نہیں آ رہا۔۔۔۔
ریحان مسکرا دیا۔
اچھا چھوڑو اسے۔۔۔۔ ہم باتیں کرتے ہیں، میرا بہت دل کر رہا ہے اپنے بیٹے کے ساتھ گپ شپ کرنے کو۔۔۔۔ ریحان نے اسکے ہاتھ سے ریموٹ لے کر ٹی وی آف کر دیا۔
وہ ہنوز اسی طرح منہ بنائے بیٹھا رہا۔
اچھا میرا بیٹا یہ بتائے کہ میم عائشہ کیسی لگتی ہیں آپ کو؟
ریحان کی زبان پہ اسی کا ذکر خودبخود آ گیا جو ہر وقت حواسوں پہ سوار رہنے لگی تھی۔
نام نہ لیں، انکا میرے سامنے۔۔۔۔۔ موحد پھٹ پڑا۔
کیوں کیا ہوا؟ ریحان پریشانی سے سیدھا ہو بیٹھا۔
سٹڈی سٹڈی اور صرف سٹڈی۔۔۔۔۔ حد ہوتی ہے ہر بات کی ہر چیز کی۔۔۔۔ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گئی ہیں میرے بلکہ میں تو کہوں گا نہا دھو کر میرے پیچھے پڑ گئی ہیں۔۔۔۔ دو موٹے موٹے آنسو موحد کے گالوں پہ پھسلے۔
ریحان نے تڑپ کر اسے گود میں لے لیا۔۔۔۔ نا۔۔۔ چاچو کی جان۔۔۔ ناں۔۔۔ رونا نہیں۔۔۔۔
اچھا آپ مجھے پوری بات بتاؤ، پھر میں خود آپکی میم سے بات کروں گا۔۔۔۔
ویسے تو موحد سٹڈی میں اچھا تھا، پڑھانے والا ہو کوئی تو شوق سے پڑھنے والا بچہ تھا پر آج اس لئے بھرا بیٹھا تھا کہ اس نے دوستوں کے ساتھ گیم پریڈ میں کرکٹ کھیلنے کا پلان بنا رکھا تھا پر اس وقت میم عائشہ بھی فری تھیں سو انہوں نے اسے پکڑ لیا۔۔۔ اور لگیں اردو پڑھانے اور اس وقت تک پڑھاتی رہیں جب تک پریڈ اوور نہیں ہو گیا۔
ھاھاھا۔۔۔۔۔ پوری بات جان کر ریحان کا قہقہہ بلند ہوا، اور موحد کا پہلے سے پھولا ہوا منہ مزید پھول گیا، وہ خفا ہو کر چاچو کی گود سے اتر گیا۔
سوری میری جان سوری۔۔۔ ریحان نے کان پکڑ کر معافی مانگی۔ اچھا میں کروں گا میم سے بات، بھلا یہ کیا بات ہوئی، اتنی زیادتی کی انہوں نے نے موحد، چاچو کی جان کے ساتھ، خوب کلاس لوں گا انکی۔۔۔۔۔ ریحان نے اسے پچھکارتے ہوئے کہا۔
پر موحد کا موڈ ابھی بھی آف ہی تھا۔
چلو جی چلو۔۔۔ ہم آئس کریم کھانے جا رہے۔۔۔ ریحان نے موحد کو زبردستی کندھوں پہ سوار کر لیا اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
%%%%%%%%%%%
اففففف الماری کی چابی کہاں رکھ دی، عائشہ باؤلی ہوئی جا رہی تھی۔ پرس میں ہی رکھی تھی، اب مل ہی نہیں رہی۔
اب کی بار اس نے سارا پرس بیڈ پہ الٹا دیا۔
چابی تو نہیں ملی پر اس نے سامان کی چھانٹی کرنی شروع کر دی، پرس تھا کہ عمروعیار کی زنبیل۔۔۔۔۔
کئی طرح کے بال پوائنٹس، بورڈ مارکر،کلر پینسلز، سکول الماری کی چابی، گھر کی الماری کی چابی بھی اسی کے ساتھ ہوا کرتی تھی، جانے کہاں چلی گئی، ساتھ میں ڈھیر سارے لوگوں کے وزٹنگ کارڈ۔۔۔۔ عائشہ نے بیزاری سے سارے کارڈ ایک طرف کئے، پر ایک کارڈ ہاتھ میں آیا تو دل کے تار عجب لے میں بج اٹھے۔۔۔۔ اسکا کنفیوز کرنے والا دلفریب انداز یاد آیا تو لبوں کو ہلکی سے مسکراہٹ چھو گئی۔۔۔۔ آنکھوں میں چمک ابھری۔۔۔۔ ریحان احمد۔۔۔۔۔
ابھی کارڈ کو ہاتھ میں لئے مسکرا ہی رہی تھی کہ خالہ چلی آئیں، ہاتھ میں چابی تھی۔۔۔ یہ چابی ڈھونڈ رہی تھی عاشی۔۔۔؟
اسکے ہاتھ سے کارڈ گر گیا، جی یہی چابی ہے، کہاں سے ملی خالہ، اس نے سنبھل کر پوچھا۔
باہر عذیر کی سائکل کے ساتھ لٹک رہی تھی،۔۔۔۔
یہ عذیر بھی بہت لا پرواہ ہے۔۔۔۔ بھلا چابی کے ساتھ کیسا کھیلنا۔۔۔۔ وہ چابی لے کر الماری کی طرف بڑھ گئی۔
کتنی ہی دیر کھڑی رہی، گہری سانسیں لے کر خود کو نارمل کرتی رہی، سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔ کہ کیا ہوا، وہ تو ایسے حواس باختہ ہوئی کہ جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔
پھر خود ہی اپنی حالت پہ ہنسنے لگی۔
سائڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر کارڈ سے دیکھ کر نمبر ملانے لگی۔۔۔۔
چند بیلز کے بعد فون اٹھا لیا گیا۔
ہیلو۔۔۔ ریحان کی آواز ابھری۔
اس نے بولنے کی کوشش کی، لب ہلے پر آواز برآمد نہ ہوئی۔ آگے سے کئی بار ہیلو کیا جا چکا تھا۔
گھبراہٹ میں کال کاٹ دی۔
اگلے ہی لمحے اس نے پھر کال ملا لی، اٹھائے جانے سے پہلے ہی گلا صاف کر کے بولنے کے لیے تیار ہو گئی۔
السلام علیکم، میں عائشہ بات کر رہی ہوں۔ اس نے شائستگی سے کہا۔
وعلیکم السلام، ماشاءاللہ بہت لمبی عمر ہے آپ کی، میں آپ ہی کو یاد کر رہا تھا۔
اچھا، لیکن کیوں۔۔۔۔ اور اگر یاد کر رہے تھے تو کال کر لیتے۔۔۔۔ اسکے لہجے میں شوخی خودبخود عود آئی۔
کیسے کر لیتا کال، نمبر دینے کے قابل سمجھا ہی کہاں تھا آپ نے ہمیں۔۔۔۔۔۔ ریحان نے بھی شوخ انداز میں گلہ کیا۔
وہ آنکھیں میچ کر مسکرا دی۔ اور ریحان نے بھی تصور میں اسے مسکراتا دیکھ لیا۔
یہی نمبر ہے میرا۔۔۔۔ اس نے سوچے بنا ہی کہہ دیا۔
اوکے جناب۔۔۔۔ جواب آیا۔
اچھا اب یہ تو بتا دیں کہ آپ کیوں یاد کر رہے تھے۔
یہ میں نہیں بتا سکتا۔۔۔ آپ بتائیں آپ بے کیسے کال کر لی۔ ریحان نےبات بدلی۔
بس دل بے کہا اور میں نے کال ملا لی۔۔۔ وہ کہنا چاہتی تھی، پر کہہ نہیں سکتی تھی۔
ایکچولی میں نے موحد کے بارے میں بات کرنی تھی، میں چند دنوں سے اسے ایکسٹرا ٹائم دے رہی ہوں، مجھے لگتا ہے وہ کور کر رہا ہے، کیا آپ نے چیک کیا،؟
آپ بھی تھوڑا ٹائم نکال کر اسکا ٹیسٹ لیا کریں۔۔۔
جی میں نے سٹڈی تو چیک نہیں کی پر یہ ضرور نوٹ کیا ہے کہ وہ دن بدن چڑچڑا ہونے لگا ہے، پھر ریحان نے کل کا واقعہ دھرا دیا۔۔۔۔ دیکھیے میم عائشہ میں دل سے آپ کا ممنون ہوں کہ آپ اسے ٹائم دے رہی ہیں، پر وہ ابھی بچہ ہے، اسکا پلے ٹائم آپ لے لیں گی تو وہ مینٹلی ڈسٹرب ہو گا۔۔۔ اور فائدہ بہت کم۔۔۔۔۔۔ آپ میری بات سمجھ رہی ہیں ناں۔۔۔۔۔ ریحان نے اسکی خاموشی سے گھبرا کر پوچھا۔
جی مسٹر ریحان۔۔۔ میں سن بھی رہی ہوں سمجھ بھی رہی ہوں، آپ کے پاس اگر کوئی بیٹر چوائس ہو تو بتا دیں۔۔۔۔ کوئی سجیشن۔۔۔۔۔۔ عائشہ نے کھلے دل سے کہا۔
میں سوچ رہا ہوں آپ اسے ہفتے میں دو یا تین دن صبح سکول ٹائم سے پہلے تھوڑا ٹائم دے دیا کریں۔۔۔۔ کیا خیال ہے، ریحان نے رائے دی۔
عائشہ کی نظروں کے سامنے اپنی صبح کی تیاری کا منظر گھوم گیا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ صبح ٹائم نہیں دے پاؤں گی، ایسا کرتے ہیں میں چھٹی کے بعد ایسا کر لوں گی۔۔۔
ایز یو وش۔۔۔۔ مس عائشہ۔۔۔۔ ریحان ایگری ہو گیا۔
اوکے۔۔۔۔۔ دن ڈیسائڈ کر کے بتا دوں گی۔۔
اوکے تھینکس۔۔۔۔
%%%%%%%%%%%
چاچو میں آئس کریم کھا کر گھر جاؤں گا، پڑھ پڑھ کر تھک گیا ہوں، آئس کھاؤں گا تو فریش ہوں گا۔ موحد نے کار میں بیٹھتے ہی کہا۔
اوکے چاچو کی جان۔۔۔۔۔ ریحان نے کار آگے بڑھا دی۔
سکول کے قریب ہی ایک آئس کریم پارلر تھا، وہ وہی چلے گئے، کار میں بیٹھے ہی آڈر دے دیا۔۔۔۔
چاچو وہ دیکھیں، میم عائشہ۔۔۔۔۔ موحد چیخا۔
ریحان نے دیکھا تو سڑک کے اس پار بس سٹینڈ پہ واقعی عائشہ ہی کھڑی تھی۔ وہ پریشان حال دکھائی دے رہی تھی، گرمی بھی شدید اور دور دور تک کوئی سواری بھی نہیں نظر آ رہی تھی۔۔۔
آئس کریم آ گئی، موحد آئس کریم کے ساتھ بزی ہو گیا۔ ریحان نے کار بس سٹینڈ کے سامنے روک دی۔،
آئیں مس عائشہ میں آپ کو ڈراپ کر دوں۔۔۔ اس نے شیشہ اتارتے ہوئے کہا۔
عائشہ انکار کرنا چاہتی تھی، پر گرمی سے برا حال اور عذیر کے لیے فکر مند تھی، آج اسے بخار تھا، وہ سکول نہیں آیا تھا، خالہ نے اسے جلدی آنے کی تلقین کی تھی اور اسے ابھی تک کوئی سواری نہیں ملی تھی سب رکشے ویگن وغیرہ اس وقت بچوں کو ڈراپ کرنے میں لگے ہوتے۔۔۔۔
موحد اسے دیکھ کر پچھلی سیٹ پہ چلا گیا۔
وہ جھجھکتے ہوئے کار کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ گئی، اےسی سے کار کا ٹھنڈا ماحول اسکے اندر تک سکون بخش گیا۔۔۔ ساتھ ہی ریحان نے اسے آئس کریم بھی تھما دی۔
نہیں پلیز آپ لیں۔۔۔۔ اس نے انکار کرنا چاہا۔
میں اتنے شوق سے نہیں کھاتا، بس موحد کو کمپنی دینے کے لیے کھا لیتا ہوں، مجھے خوشی ہو گی اگر آپ کھائیں گی تو۔۔۔۔اور دیکھیے گا طبیعت ایک دم فریش ہو جائے گی۔۔۔۔ ریحان کے کہنے پہ عائشہ آئس کریم کھانے لگی۔
وہ ٹھیک کہہ رہا تھا، طبیعت واقعی فریش ہونے لگی تھی، طبیعت پہ جو بوجھ تھا وہ چھٹ سا گیا تھا۔
جی میم آپ نے بتایا نہیں آپ کو کدھر جانا ہے۔۔۔۔ ریحان نے شوخی دکھائی۔
پیپلز کالونی۔۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔۔ عائشہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا،
اوکے۔۔۔۔ کار اب اس کالونی کی طرف جا رہی تھی۔
موحد لگتا آپ کے ساتھ زیادہ اٹیچ ہے،
جی بالکل، ریحان نے سامنے دیکھتے ہوئے ہی کہا۔
کیا اسکے فادر نے دوسری شادی کر لی۔ عائشہ نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
نہیں، اسکے ممی اور ڈیڈ دونوں کی ایک ساتھ ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ڈیتھ ہوئی تھی، اس وقت موحد کی عمر دو سال تھی، یہ بھی ساتھ تھا، پر معجزانہ طور پہ بچ گیا۔۔۔۔
ریحان کی آواز بھرا سی گئ۔
اووو آئی ایم ریلی سوری۔۔۔۔ عائشہ کو موحد سے دلی ہمدردی ہوئی۔
یہ تو بہت چھوٹا تھا، اسے لک آفٹر کس نے کیا پھر۔۔۔۔ اگلا سوال کیا گیا۔
آف کورس میں نے۔۔۔۔۔ ریحان نے فخر سے کہا۔
یہ تو بہت مشکل کام تھا، آپ کو شادی کر لینی چاہیے تھی۔ عائشہ نے اپنے تئیں مشورہ دیا۔
جی۔۔۔۔ چاہتا تو میں بھی یہی تھا، پر مجھے لگا کہ حفضہ یہ ذمہ داری نبھا نہیں پائے گی، سو میں نے اسے مجبور نہیں کیا، اسے آزاد چھوڑ دیا کہ جاؤ، اپنی زندگی اپنے حساب سے جی لو۔۔۔۔ اور خود اپنے شہزادے کے ساتھ مصروف ہو گیا، ریحان نے پچھلی سیٹ پہ موحد پہ نظر ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔ موحد جانے کب کا سو چکا تھا۔
یہ حفضہ کون۔۔۔۔۔۔ عائشہ کو پوچھنا عجیب لگا پر پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
میری پہلی محبت۔۔۔
ہم دونوں یونیورسٹی میں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔۔۔۔ اچھے دوست تھے، کب پیار ہو گیا پتہ ہی نہیں چلا۔
بھائی بھابھی نے ہماری پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے، اسکا رشتہ مانگ لیا، اسکے پیرنٹس کے پاس انکار کا کوئی جواز نہ تھا، سو ہماری منگنی کر دی گئی،
فیصلہ ہوا کہ سٹڈی سے فری ہوتے ہی شادی کر دی جائے گی۔
نوکری کی مجھے فکر نہ تھی، بھائی کے ساتھ بزنس ہی دیکھنا تھا۔
ہم دونوں بہت خوش تھے اور خود کو دنیا کا خوش نصیب جوڑا سمجھ رہے تھے کہ جو چاہا، بنا کسی محنت کے پا بھی لیا۔
پھر ہم سٹڈی سے فری ہو گئے، میں آفس جانے لگا اور وہ اپنی ممی کے ساتھ شاپنگ پہ، دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔