سڑک کنارے لگی ریڑھیوں سے لوگ خریداری کر رہے تھے، بازار بھرا پڑا تھا، کچھ پھل سبزی خرید رہے تھے کچھ دوسری ضرورت زندگی کا سامان۔۔۔ وہ بھی انہی میں شامل تھی، اچانک سے شور اٹھا۔۔۔ گھوڑوں کی تاپوں کی آواز پہ بھاگ دوڑ مچ گئی، آواز قریب آ رہی تھی، ہر طرف قیامت برپا دکھائی دے رہی تھی، وہ بھی بھاگنا چاہتی تھی پر قدم ساتھ دینے سے انکاری تھے، جلد ہی گھوڑوں کا قافلہ اسکے سر پہ آن پہنچا۔۔۔
سب سے اگلے گھوڑے پہ اک خوبرو جوان سوار تھا، اس نے دیکھا تو دیکھتی ہی رہ گئی، جانے لوگ کیوں ڈر رہے تھے، اس نے حیرت سے سوچا۔۔۔۔
قریب پہنچتے ہی اس گھڑ سوار شہزادے نے اسے اچک لیا اور اسکا گھوڑا پھر سے ہوا سے باتیں کرنے لگا۔۔۔
گھوڑے کی رفتار بہت تیز تھی اور وہ ابھی تک گھوڑے پہ صحیح سے سوار نہ ہو سکی تھی، اسے ان جھٹکوں میں اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔
شہزادہ چیخ چیخ کر اس سے کچھ کہہ رہا تھا پر اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا بس شور ہی شور تھا۔۔۔۔
اٹھو ممی اٹھو۔۔۔۔ اب اٹھ بھی جائیں۔۔۔ دیر ہو جائے گی۔ بہت مشکل سے آنکھیں کھلیں تو وہ بستر پہ تھی،خالی ذہن سے چھت کو تکتی رہی، عذیر اس پہ کود رہا تھا۔۔۔۔۔ اور تو وہ گھوڑے پہ سوار نہیں تھی، نہ ہی کوئی شہزادہ اسے لینے آیا تھا۔۔۔۔ وہ جھٹکے تو عذیر کے کودنے کی وجہ سے تھے اورسانس بھی اسی وجہ سے رک سی رہی تھی کہ وہ اسکے سینے پہ چڑھا ہوا تھا اور ساتھ میں اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔اس نے مایوسی سے منہ بنایا۔ یہ خواب بھی ناں۔۔۔۔
وہ نیند کی بہت پکی تھی، سوتی تو دنیا مافیا سے بے خبر ہو جاتی، عذیر صبح صبح ہی جاگ جایا کرتا، پر سکول سے روز ہی لیٹ ہوتا کہ ماں وقت پہ نہیں جاگ پاتی تھی،
ممی وی آر گیٹینگ لیٹ۔۔۔۔ آج تو پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہے۔۔۔۔۔عذیر چیخا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی، اووو ہاں۔۔۔۔ آج پرنسپل نہیں چھوڑیں گے۔۔۔۔ اس نے جلدی جلدی تیاری کی،عذیر کو یونیفارم پہنایا، خود جلدی سے کپڑے بدلے بنا ہی عبایا پہن لیا۔ ، دو سلائس اور انڈا لنچ بکس میں ڈال کر سکارف لیا اور عذیر کو لے کر گھر سے نکل آئی،
اپنے منہ میں بھی کچھ ڈالتی جاؤ بیٹا۔۔۔ خالہ نے پیچھے سے آواز لگائی۔۔۔۔
ٹائم نہیں ہے خالہ،عذیر کے لیے رکھ لیا ہے، رکشے میں کھلا دوں گی۔ اگلی گلی سے ہی رکشہ مل گیا۔
سکول پہنچی تو میٹنگ ٹائم شروع ہو چکا تھا، پرنسپل نے کچھ کہا نہیں پر افسوس سے سر ہلا دیا کہ یہ نہیں سدھر سکتی۔۔۔۔
عذیر باہر جھولوں پہ ہی کھیلنے لگا اور وہ بھاگم بھاگ کلاس میں پہنچی، جلدی سے الماری سے سب بچوں کے رپورٹس کارڈ نکالے۔۔۔ اور کرسی سنبھال لی۔
سامنے بیٹھا، وہ شخص ہاتھ پہ تھوڈی ٹکائے مسلسل اسے دیکھے جا رہا تھا، وہ جانے کب سے آیا بیٹھا تھا، پر اسکی پیشانی پہ اک بھی بل نہ تھا، بلکہ لبوں پہ اک دبی دبی سی مسکراہٹ تھی۔۔۔۔
آئی ایم سوری۔۔۔۔ مجھے دیر ہو گئی۔۔۔۔ آپ کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی۔۔۔ وہ کنفیوز ہو رہی تھی۔
اٹس اوکے میم۔۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ وہ سیدھا ہو بیٹھا۔
آپ کو کس کا رزلٹ دیکھنا ہے، میرا مطلب ہے یور چائلڈ نیم پلیز۔۔۔۔اسکی نظریں اسے کنفیوز کر رہی تھیں، سامنے بیٹھے شخص کی نگاہوں میں ضرور کچھ خاص تھا۔
موحد وقار۔۔۔۔ مختصر جواب آیا۔
جی۔۔۔ اس نے جلدی جلدی ہاتھ چلانے کی کوشش کی پر ہاتھ کانپے جا رہے تھے، دل چاہا کہ ابھی کے ابھی اس شخص کو آؤٹ کر دے، کہ اسکی موجودگی میں کچھ بھی نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔۔ اسے بھی جانے آج کیا ہو گیا تھا، سارا کانفیڈینس ہوا ہو گیا تھا۔
اس نے کئی بار سب فائل دیکھ لیں، پر موحد کی فائل مل ہی نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔ اب تو اسے پسینہ بھی آنے لگا تھا۔
موحد وقار کی فائل سامنے پڑی بھی اسے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔
جی یہی والی ہے۔۔۔ اس شخص نے ہاتھ بڑھا کر اسکے آگے سے فائل اٹھا لی۔۔۔۔
وہ تھوک نگل کر بمشکل مسکرا سکی۔ جوابا وہ شخص بھی مسکرا دیا تھا،جس طرح وہ خود ہینڈ سم تھا اسکی مسکراہٹ بھی بہت دلفریب تھی۔
اس نے موحد کا رزلٹ دیکھا۔۔۔۔ پھر فائل ایک طرف رکھ دی۔
اپکا نام کیا ہے میم ، بہت سنجیدگی سے پوچھا گیا۔
دیکھیں۔۔۔۔ آپ کو جو کہنا ہے مجھ سے کہہ دیں، کسی اور سے کہنا ٹھیک نہیں، ایسے مسئلے حل نہیں ہوا کرتے، بڑھا ہی کرتے ہیں ، وہ گبھرا سی گئی کہ شاید پرنسپل سے شکایت کرنے کے لیے نام پوچھا گیا ہے۔
سوچ لیں۔۔۔۔ کیا سچ مچ کہہ دوں جو کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ ایسے انداز میں کہا گیا کہ وہ ہونقوں منہ تکنے لگی۔۔۔
آنکھیں جھپکنا بھول گئیں۔۔۔۔
میم اپکا نام شکایت کرنے کے لیے نہیں پوچھا، بات چیت میں آسانی ہو جائے، اس لئے پوچھ رہا ہے یہ ناچیز بندہ۔۔۔۔ اس شخص نے سر کو خم دیتے ہوئے تابع داری سے کہا۔
اففففف خدایا، کیا چیز ہے یہ بندہ۔۔۔۔ اس نے سوچ کر سر جھٹکا۔
عائشہ نام ہے میرا، مس عائشہ۔۔۔۔۔
موحد بہت اچھا بچہ ہے، بہت پولائیٹ، ہیلپنگ، اوبیڈینٹ۔۔۔۔ ماشاءاللہ۔۔۔۔۔ باقی سٹڈی کو ٹھیک ہے بس اردو ریڈنگ میں تھوڑا ویک ہے، میں ڈیلی بیس پہ ریڈنگ کرواتی ہوں، پر آپ اسکی مدر سے کہیں کہ گھر پہ بھی ڈیلی ریڈنگ کروایا کریں۔ ان شا اللہ بہت جلد وہ اچھا ہو جائے گا۔
اس نے اپنا آپ سنبھال کر کانفیڈینس سے بات کی۔
اسکی مدر نہیں ہیں۔۔۔ ڈیتھ ہو چکی ہے، سنجیدگی سے بتایا گیا۔
اووو ایم ریلی سوری۔۔۔۔ اسے واقعی بہت دکھ ہوا تھا۔
کوئی بات نہیں میں خود کسی طرح ٹائم نکال کر اسکی ایکسٹرا ریڈنگ کلاس لے لیا کروں گی، ڈونٹ وری۔۔۔ اس نے مسکرا کر ماحول کی سنجیدگی کو کم کرنا چاہا۔
شیور۔۔۔۔ مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیا گیا۔
اپکا سیل فون نمبر مل سکتاہے مس عائشہ ۔۔۔ اس کے پوچھنے پہ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی کہ کتنا دیدہ دلیر بندہ ہے۔۔۔۔
موحد کے بارے میں کچھ ڈسکس کرنا ہو تو۔۔۔۔ اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
جی۔۔۔۔ میرا پرسنل نمبر نہیں ہے، آپ پرنسپل کے آفس کال کر سکتے ہیں، میں آن لائن آ جاؤں گی، جو بات کرنی ہو کر لیجیے گا۔
اس نے سہولت سے ٹالا۔
جو بات میں نے کرنی ہے، وہ آفس کے نمبر پہ تو نہیں ہو سکتی ناں۔۔۔۔ وہ سوچ کر رہ گیا۔
چلیں آپ میرا کارڈ رکھ لیں، جو بات آپ نے کرنی ہو، اس نمبر پہ کر لیجیے گا، اس نے معنی خیزی سے کہا۔
عائشہ نے نروس ہوتے ہوئے کارڈ تھام لیا۔
مسٹر ریحان احمد۔۔۔۔۔ اس نے زیر لب پڑھا۔
پر سر موحد تو موحد وقار ہے۔۔۔۔۔ وہ پوچھے بنا نہیں رہ سکی۔
میں اسکا چاچو ہوں۔۔۔ ریحان اسکا مطلب سمجھ چکا تھا،مسکرا کر کہا اور فائل لے کر چلتا بنا۔
پیچھے عائشہ نے اک گہری سانس خارج کی کے بہت کڑے امتحان سے گزری تھی۔
ریحان باہر نکلا تو ہر سو میک اپ سے اٹے مصنوعی چہرے دکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔ جو چہرہ وہ ابھی دیکھ کر آیا تھا سادے سے مہرون کلر کے سکارف کے ہالے میں میک اپ سے پاک اک سادہ سا چہرہ۔۔۔۔ وہ سادگی میں بھی سب سے الگ، سب سے دلفریب لگ رہا تھا، وہ اپنی سادگی سمیٹ پہلی نظر میں ہی اسکے دل میں اتر گئی تھی۔ کتنے عرصے بعد اسے کوئی بھایا تھا۔۔۔۔ چلو دیر آید درست آید۔۔۔ وہ مسکرا دیا تھا۔
%%%%%%%%%%%%%%
وہ سفید گھوڑے پہ سوار، شہزادے کو پشت سے مضبوطی سے تھامے بیٹھی تھی، گھوڑا تھا کہ اڑ رہا تھا، اس نے خوف کے مارے آنکھیں میچ رکھی تھیں۔۔۔
ممی چھوڑو مجھے، میرا دم گھٹ رہا ہے۔۔۔۔ ممی چھوڑو۔۔۔۔
عذیر کے چیخنے پہ اسے ہوش آیا۔۔۔ اس نے جلدی سے ہاتھ ہٹا لئے اور عذیر اسکی گرفت سے آزاد ہوا۔۔
تم میری جان چھوڑ کیوں نہیں دیتے، اس نے افسردگی سے کہا۔
ممی۔۔۔۔۔ عذیر کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
اووو میری جان آپ کو نہیں بولا، شہزادے سے کہہ رہی ہوں۔۔۔ عائشہ نے اپنے بیٹے کو پیار سے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا۔
کونسا سا شہزادہ۔۔۔ عذیر نے خیرانی سے پوچھا۔
خوابوں کا شہزادہ۔۔۔۔ عائشہ نے زیر لب مسکرا کر کہا۔
وہ کیوں آتا ہے ممی۔ اگلہ سوال کیا گیا۔
مجھے لینے۔۔۔۔۔ اب کے عائشہ کے لبوں پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
وہ آپ کو لینے آتا ہے، آپ چلی جاؤ گی۔۔۔۔؟؟؟ آپ چلی گئی تو میں کس کے ساتھ رہوں گا، مجھے کھانا کون دے گا۔۔۔۔۔ سکول ورک کون کروائے گا۔۔؟؟ کیا شہزادہ مجھے اپنے ساتھ نہیں لے کر جائے گا۔۔۔۔
پریشانی کے عالم میں عذیر نے کئی سوال ایک ساتھ ہی کر ڈالے۔۔۔۔
میں اس شہزادے کے ساتھ جاؤں گی ہی نہیں، جو میرے عذیر کو اپنے ساتھ نہ لے کر جائے۔۔۔۔ عائشہ نے کئی بار اسکا چہرہ چوم ڈالا۔
اور آپ کو پتہ ہے، یہ شہزادے جو خواب میں آتے ہیں، یہ بس خواب میں ہی اتے ہیں، حقیقت سے انکا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔۔۔۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔۔۔
اسکی باتیں عذیر کے سر سے گزر گئیں تو اسے بھوک نے ستانا شروع کر دیا۔
ممی اب اٹھ جاؤ ناں۔۔۔۔
کیوں عذی۔۔۔۔ آج تو چھٹی ہے ناں۔۔۔ مجھے ابھی اور سونا ہے، اس نے چادر سر پہ تانی۔
پر ممی بھوک کی تو چھٹی نہیں ہے ناں۔ اس نے ماں کی چادر کھینچی۔
اور وہ کسمسا کر رہ گئی۔