کامران اور سارہ سلمان کے جانے کے بعد ایک دو دن وہ اپ سیٹ رهی اور پهر آهستہ اهستہ نارمل هوتی گئی
کامران سے دلی انسیت هو گئی تهی اسے مگر وہ برملا اظہار کرنے سے بہرحال گریز کیا تها وہ جب تک یہاں رها ایمان کو اسکے خاص هونے کا احساس اپنی نظروں سے هی کرواتا رها
آج بیماری کے بعد تقریبا پندرہ دن بعد وہ کالج آئی تهی ثنا البتہ بیچ میں تین چار دن کالج کو دیدار کا شرف بخش چکی تهی ثنا کی بدولت هی اسکی کلاس فیلوز اور ٹیچرز کو اسکی بیماری کا پتہ چلا تها اور سب نے هی بہت خلوص سے اسکا حال دریافت کیا تها
ثنا کو کچھ نوٹس بنانے تهے تو وہ لائبریری میں هی رک گئی تهی ڈرائیور کو بهی ایک گهنٹہ لیٹ آنے کا ثنا بتا چکی تهی
اسے گهبراهٹ محسوس هو رهی تهی تو وہ اٹھ کر باهر لان میں آ بیٹهی
کالج تقریبا خالی هوچکا تها سواۓ چند سٹوڈنٹ کے جو لائبریری میں محو پڑهائی تهے
موسم کافی خوشگوار تها بینچ پر بیٹهی سامنے لگے پهولوں کو دیکهتے وہ نجانے کیا سوچ رهی تهی جب سر جہانزیب کی آواز پر وہ چونکی
"کونسا لاء ایجاد کرنے کے بارے میں سوچا جا رها هے مس آفندی"
سینے پر هاتھ باندهے اسے دیکھ کر پوچها "نن۔۔۔۔ نہیں سر میں بس یوں هی"
گبهراهٹ میں کہتی هوئی وہ کهڑی هو گئی
"آپ ابهی تک گهر کیوں نہیں گئیں کالج آف هوۓ کافی دیر هو چکی هے"
انہوں نے هاتھ پر بندهی قیمتی گهڑی میں ٹائم دیکهتے هوۓ کہا
"وہ سر ثنا لائبریری میں هے نوٹس بنا رهی هے کچھ دیر تک چلے جائیں گے سر"
سر جهکا کر بولی
"همهم همهم۔۔۔آپ کی طبعیت کیسی هیں اب مس"
نرم لہجے میں کیے گئے سوال پر وہ قدرے ریلکس هوگئی
"الحمداللہ اب ٹهیک هوں سر"
اسی طرح هلکی پهلکی گفتگو میں ٹائم گزرنے کا اندازہ نہ هوا وہ تب چونکی جب ڈرائیور نے ہارن دیا سر جہانزیب کو خداحافظ کہتی وہ ثنا کو بلانے لائبریری کی جانب بڑھ گئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
گهر میں شادی کی تیاریاں عروج پر تهیں
گهر کی عورتوں کے ساتھ ساتھ حمزہ بهی گهن چکر بنا هوا تها کبهی ڈیکورشن والے کے تو پیچهے کبهی مہمانوں کے لئے کیے گئے اریجمنٹ کے لئے خوار هو رها تها
ثنا کو مایوں بیٹها دیا گیا تها سارہ سلمان اور عمران بهی پہنچ چکے تهے
اس وقت ایمان کو چهوڑ کر سب لوگ ڈرائنگ روم میں موجود خوش گپیوں میں مصروف تهے جبکہ ایمان ثنا کے پاس دوسرے روم میں تهی
"دولہا هوکر مجھ سے کام کروا رهے هیں سب مجهے بهی مایوں بٹهاؤ بس" حمزہ نے مسز علی کی گود میں سر رکهتے هوۓ کہا
اسکی اس بات پہ سب هی زیرلب مسکرادیئے
"کیوں بهئی برخور دار ابهی سے هار مان لی ابهی تو دوڑ شروع بهی نہیں هوئی"
احمد آفندی نے مزاحیہ لہجے میں کہا
"بڑے پاپا آپ خود انصاف کریں دو دن سے مجهے گن چکر بنایا هوا هے میں تو دولہا هوں"
معصوم شکل بنا کر کہا
"کیا هو گیا یار میں کر دوں گا اب سارے کام تو بس آرام سے مایوں بیٹھ جا"
کامران نے شرارت سے کہا
"واہ بهائی هوشیار خان اب رہ هی کیا گیا هے سارے کام تو نپٹا دیئے هیں میں نے تیری مہربانی جو تو امریکہ سے تشریف لے آیا"
حمزہ نے جل کر کہا
کامران نے اطمینان سے کہا اور حمزہ دانت پیس کر رہ گیا"
حمزہ بهائی ثنا کہہ رهی هے اسے چاکلیٹ کهانی هے آپ لا دیں پلیز"
ایمان نے آکر اسے نئی فرمائش سنائی حمزہ کو تو صدمہ هی لگ گیا جبکہ باقی سب نے اس بات پر قہقہه لگایا
"واٹ اس ٹائم اور چاکلیٹ ٹائم دیکها هے تم نے"
حمزہ کو تو گویا کرنٹ هی لگ گیا
"بهائی میں نہیں ثنا بول رهی هے"
"اس ثنا کو تو میں ابهی بتاتا هوں"
حمزہ اٹهتے هوۓ بولا جب کامران نے اسکا بازو پکڑ کر پهر سے اسے بٹها دیا "شادی سے پہلے تم ثنا سے نہیں مل سکتے اور جاؤ اب اسے چاکلیٹ لا کر دو"
مسز علی نے کہا اور وہ برے برے منہ بناتا وهاں سے اٹھ گیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
شادی کا ہنگامہ اپنے عروج پر تها مسڑ علی اور مسڑ احمد نے سب کو هی شادی میں انوائیٹ کر رکها تها۔
مہندی کی رسم بہت دهوم دهام سے کل ادا کر دی گئی تهی جبکہ آج شادی کا فنکشن تها بہت زیادہ مہمانوں کی وجہ سے شادی هال بک کیا گیا تها اس وقت بهی سب شادی هال میں جمع تهے ثنا کو ایک فرینڈ کے ساتھ پارلر بهیج دیا گیا تها جبکہ کامران کو ان کے ڈرائیوار کی ذمہ داری سونپی گئی تهی دوسری طرف ایمان آنے والے مہمانوں کو ویل کم کر رهی تهی
کچھ هی دیر کے بعد ثنا کو دلہن کے روپ میں اسٹیج تک لایا گیا حمزہ پہلے سے هی اسٹیج پر براجمان تها
سفید شلوار قمیض کے اوپر بلیک واسکٹ پہنے کافی فریش لگ رها تها جبکہ ثنا روایتی سرخ عروسی لباس میں بہت خوبصورت لگ رهی تهی
تهوڑی هی دیر بعد مولوی صاحب نے دونوں کا نکاح پڑهایا
هر طرف سے مبارک مبارک کی آوازیں بلند هورهیں تهیں کامران کی نظریں پورے فنکشن میں ایمان پر جمی رهیں ۔ کهانے وغیرہ کے اریجمنٹ کا اطمینان کر کے وہ ایک کونے میں آکر کهڑی هوگئی
تب هی کامران اسکے پاس آیا
"کیا هوا اداس کیوں هو"
دهیمے لہجے میں پوچها اور وہ تو جیسے پهٹ پڑی بے تحاشا آنسو اسکی آنکهوں سے نکل پڑے ادهر کامران کے هاتھ پاؤں پهول گئے
"ایمان کیا هوا کچھ بتاو تو"
اس نے اسکے کندهے پر هاتهھ رکهتے هوۓ کہا اور وہ بے اختیار اسکے سینے سے لگ کر شدت سے رو دی جبکہ کامران پریشان سا اسکے بالوں میں هاتھ پهیرتے هوۓ مسلسل اسے تسلیاں دئیے جارها تها کچھ دیر بعد جب آنسو تهمے ایک جهٹکے سے وہ اس سے علیحده هوئی اپنی بے اختیاری پر وہ بے حد شرمندہ هوئی
"آیم سوری"
آنکهیں رگڑتے هوۓ وہ بولی
"کیا هوا تها کیوں رو رهی تهیں طبعیت ٹهیک هے تمهاری"
وہ اب تک پریشان تها
"مجهے ثنا بہت یاد آۓ گی"
نظریں جهکا کر بولی آنسو ایک بار پهر برسنے کو تیار تهے
"ارے پاگل لڑکی اتنی سی بات پہ اتنے قیمتی آنسو ضائع کر دئیے اور ثنا تمهارے گهر میں هی تو رهے گی تو جب تمهارے سامنے رهے گی تو یاد کیسے آۓ گی هاں اسٹوپڈ گرل"
اسکے ماتهے پہ هلکا سا هاتھ مارتے هوۓ بولا
"مگر همارا رشتہ تو بدل جاۓ گا اور اگر وہ بهی بدل گئی تو"
گلوگیر لہجے میں کہا "ایسا کچھ نہیں هوگا اوکے اور اب یہ رونے کا سین اینڈ کرو اور ادهر دیکهو میں تمهارے لئے کیا لایا هوں"
اسکے آنسو کامران کو اچهے نہیں لگ رهے تهے سو دهیان بٹانے کو اسکے آگے ایک گفٹ پیک کرتے هوۓ بولا
"یہ کیا هے"
وہ پیک کو الٹ پلٹ کرکے دیکهتے هوۓ بولی
"خود هی دیکھ لو"
پرشوق نگاهوں سے دیکهتے هوۓ بولا
گفٹ پیک کو کهولتے هی وہ اچهل پڑی
"یہ۔۔۔۔ یہ کب لی آپ نے"
وہ حیرت سے بولی
اس پیک میں بے حد خوبصورت فریم میں ایمان کی شرمائی شرمائی سی تصویر تهی جب ثنا کی بات پہ وہ جی جان سے مسکرائی تهی
"جب آپ میرے خیالوں میں کهوئی تهیں ایمان آئی رئیلی لو یو"
کامران نے اسکا هاتھ پکڑتے هوۓ خمار آلود لہجے میں کہا
اور اس بات پر اسکی کانوں کی لوئیں سرخ هو گئی اور وہ اپنا هاتھ چهڑوا کر اسٹیج پر ثنا کی جانب بڑھ گئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
بے شمار دعاؤں کے ساۓ میں ثنا ایک روم سے دوسرے روم میں رخصت هوگئی پہلے شادی اور پهر ولیمہ کا ہنگامہ سرد هوا تو دعوتوں کا سلسلہ شروع هوگیا پڑهائی سے تو ثنا کو ویسے هی شغف نہیں تها اور شادی کے بعد تو ایک مہینہ دعوتوں کے بعد ایمان کے بے حد اسرار پر آج وہ کالج آئی تهی
"جلدی سے پیپرز هوں تو جان چهوٹے"
ثنا نے لیز کهاتے هوۓ بیزاری سے کہا
"توبہ هے کتنی الرجی هے تمهیں پڑهائی سے"
ایمان نے نوٹس بناتے هوۓ کہا
"هاں نا یار بس اور اب تو میں کالج نہیں آؤ گی"
"اوکے بابا مت آنا اب کہاں تمهارا دل کرے گا میرے ساتھ ٹائم سپنڈ کرنے کا آئی نو"
اداس لہجے میں بولی
"ایسی کوئی بات نہیں هے یار تجهے پتہ تو هے مجهے شروع سے هی اسٹڈیز میں انٹرسڈ نہیں تها اور اب۔۔۔۔۔ تو بالکل هی نہیں دل کرتا"
اپنی آخری بات پہ وہ مسکرائی جبکہ ایمان بهی پهیکی سی هنسی هنس دی
"هاں هاں آئی نو کیوں دل نہیں کرتا"
کیوں کو لمبا کهنچتے هوۓ بولی تو ثنا چهنپ گئی
اور ایمان کو لگا اس نے ثنا کو کهو دیا هے اور اتنا غلط بهی نہیں لگا تها اسے
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
بالاخر فائنل پیپرز آۓ اور گزر گۓ ایمان نے ایگزامز کی تیاری میں دن رات ایک کر دیا تها جبکہ ثنا نے تهوڑی بہت هی تیاری کی تهی اور اب ایمان شاندار نمبروں سے کامیاب هوئی تهی جبکہ ثنا بمشکل پاس هوئی تهی گریجویشن کے بعد ثنا مکمل طور پر گهرداری میں مصروف هو چکی تهی ایمان نے یورنیورسٹی جوائن کر لی تهی ایک هی گهر میں رهتے هوۓ ثنا اور ایمان کی ملاقات تقریبا روز هوتی تهی مگر پہلے جیسی گرم جوشی کہیں نہیں تهی کامران اور سارا سلمان بهی واپس لندن جاچکے تهے ایمان اپنی پڑهائی میں بزی هو گئی
"ثنا چلو نا شاپنگ پر چلتے هیں"
آج بہت دنوں بعد ایمان کو پڑهائی سے تهوڑی فرصت ملی تهی تو اس نے لان میں بیٹهی ثنا سے کہا جو ابهی ابهی فریش هوکر دهوپ میں بیٹهی تهی
"هاں کیوں نہیں چلو چلتے هیں اسی بہانے تمهارے ساتھ ٹائم بهی سپنڈ کر لو گی تم تو اب عید کا چاند هو گئی هو"
ثنا نے کہا تو وہ بس شرمندہ هو کر رہ گئی
"یار اسڈیز ٹف هے بہت چلو تم تیار هو جاؤ میں مما کو بتاکر اور گاڑی کی چابی لے کر آتی هوں"
اور وہ دونوں هی اندر کی جانب بڑھ گئیں
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
شاپنگ سے فارغ هوکر جب ٹائم دیکها تو آٹھ بج رهے تهے سو ایمان نے گاڑی ایک هوٹل کے سامنے روکی
"کیا خیال هے پیٹ پوجا نہ هو جاۓ"
"نیکی اور پوچھ پوچھ"
ثنا کی بات پر وہ مسکراتیں هوئیں هوٹل کی جانب بڑھ گیئں
"کامران پهپهو وغیرہ سے بات هوئی تمهاری "
کهانا کهاتے هوۓ ثنا نے ایمان سے پوچها
"هاں هوئی تهی انفیکٹ رات مما نے بهی بات کی تهی پهپهو سے کہہ رهیں تهیں ابهی آنا مشکل هے کامران کا بزنس ڈسڑب هورها هے مگر جلدی هی آئیں گی"
"اور تمهیں بهی ساتھ لے جائیں گی رائٹ" ثنا کی بات پر اس نے شرما کے سر جهکا دیا اور ثنا هنس پڑی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
گهر جلدی واپس جانے کے چکر میں انہوں نے شوٹ کٹ لیا تها آفندی هاوس کے نفوس جتنے بهی ماڈرن تهے مگر شہر کے حالات نے سب کو هی ڈرایا هوا تها سو انکو بهی مغرب کے بعد باهر جانے کی اجازت نہ تهی جبکہ اب عشاء کی اذان هوۓ کافی دیر هو چکی تهی فون کر کے ثنا نے مسز علی کو انفارم کر دیا تها حمزہ مسڑ علی اور احمد آفندی صاحب میٹنگ کی وجہ سے لیٹ هو جائیں گے مگر وہ دونوں پهر بهی جلد از جلد گهر پہنچنا چاهتی تهی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
صبح سے کافی دهند تهی دهند کی وجہ سے موسم کافی سرد تها
"ایمان بیٹا آج موسم بہت خراب هے آج یونی سے چهٹی کر لو"
مسز احمد نے تیار هوتی ایمان سے کہا
"بڑی مما آج میری بہت ضروری اسائمنٹ هے ورنہ میرا تو خود دل نہیں چاہ رہا تها آج جانے کو"
"پهر بهی بچے میرا دل نجانے کیوں گهبرا رها هے تمهارے پاپا انکل حمزہ سب جا چکے هیں تو اکیلی بس روٹ تک کیسے جاؤ گی بیٹا"
انہوں نے پریشانی سے کہا
"میری پیاری بڑی مما کی دعائیں هیں نا میرے ساتھ ڈونٹ وری اینڈ سمائل"
گلے میں بانہیں ڈالتے هوۓ کہا
"خوش رهو میری جان" "اچها سارا پیار اسی بیٹی کے لئے اور اس بیٹی کے لئے ٹهینگا"
ثنا جو کہ دروازے پہ کهڑی سارا منظر دیکهه چکی تهی نے منہ بسورتے هوۓ کہا
"تم دونوں هی میرے جگر کے ٹکڑے اس گهر کی رونق هو ادهر آؤ"
مسز احمد نے دونوں کو گلے لگاتے هوۓ کہا
"اگر یہ لو سین ختم هوگیا هو تو ناشتہ کر لیں"
مسز علی نے تینوں کو دیکهتے هوۓ کہا
اور سب هنستے مسکراتے ناشتے کی ٹیبل کی جانب بڑھ گئے
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
یورنیورسٹی میں اسائمنٹ سبمٹ کروانے اور لائبریری میں اسے کافی دیر لگ گئی جب باهرنکلی تو کچھ اسٹوڈنٹز کے علاوہ باقی سب جا چکے تهے شوکنگ نیوز جس نے اسے صحیح معنوں میں پریشانی میں مبتلا کر دیا تها کہ یونی بس پانچ منٹ پہلے نکل چکی هے
موسم کے تیور بهی ٹهیک نہیں تهے کسی بهی وقت بارش شروع هو سکتی تهی موبائل وہ بہت کم یونی لاتی تهی آج بهی موبائل وہ گهر بهول آئی تهی اس سے پہلے کہ بارش شروع هوتی وہ گهر جانے کا بندوبست کرنا چاهتی تهی اسی لئے یونی سے باهر لفٹ کے انتظار میں کهڑی هوگئی
کچھ هی دیر میں ایک بلیک مرسیڈیڑ اس کے پاس آکر روکی۔۔۔۔۔۔۔
بلیک شیشوں والی کار کا شیشہ نیچے هوا بے حد ڈیسنڈ آدمی ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان تها
"کیا آپ مجهے تهوڑا آگے تک لفٹ دے سکتے هیں پلیز میری یونی بس مس هو گئی هے"
لجاجت بهرے لہجے میں کہا
"یس شیور پلیز کم"
اسکی طرف کا لاک کهولتے هوۓ بولا
"تهینک یو"
دوپٹہ سنبهالتی کار میں بیٹهتے هوۓ ایک بار ممنونیت سے بولی
ابهی وہ پوری طرح ایڈجسٹ بهی نہ هو پائی تهی کہ تیز بدبو سے اٹا رومال اسکے ناک پر رکها گیا اور چند لمحوں میں هوش و حواس کی دنیا سے بیگانہ هوگئی کار فارم هاوس کی جانب مڑنے لگی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ادهر جب ایمان شام تک گهر نہیں پہنچی تب حمزہ یورنیورسٹی پہنچا پتہ چلا کہ وہ کب کی وهاں سے جا چکی هے هر پاسبل جگہ تلاش کیا گیا بالاخر پولیس میں رپورٹ درج کروائی گئی
مگر اتنے بڑے شہر میں ایک جواں لڑکی کا دن دیہاڑے اغواء هو جانا عام سی بات تهی
ادهر مسز علی کا رو رو کر برا حال تها ثنا اور مسز احمد انہیں جتنا تسلی دیتے وہ اتنی شدت سے بکهرتی جاتیں
"مجهے میری بچی چاهیے مجهے میری بچی لادو کوئی"
مگر کسی کے بس میں کچھ نہ تها سب خاموش تماشائی بنے هوۓ تهے
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
کمرہ پوری طرح تاریکی میں ڈوبا هوا تها اس نے اٹهنے کی کوشش کی مگر ایک دم سے سر تهام کر لیٹ گئی سب یاد آنے پر اسکی آنکهوں سے آنسو بہہ نکلے سب کی پریشانی کا سوچ کر آنسوؤں میں مزید روانی آگئی یوں هی روتے نجانے کتنی دیر گزر گئی لائٹ سسٹم بهی نہیں تها یا شاید جان بوجھ کر هٹا دیا گیا تها ایک کونے میں سکڑی سمٹی سیسک رهی تهی جب کمرے کا دروازہ کهلنے کی آواز آئی
ساتھ هی روشنی کا جهپکا اسکی آنکهوں سے ٹکرایا اندهیرے میں رهنے کے بعد ایک دم روشنی سامنے آنے سے اسکی آنکهیں چندهیا گئیں
"کهانا کها لو"
بهاری آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی
آنے والا خاموشی سے کهانے کے برتن اسکے سامنے رکھ کر ایک طرف کهڑا هوگیا
صبح ناشتے میں ایک سلائس کهانے کے علاوہ اب تک اسکے پیٹ میں کچھ نہیں گیا تها پهر بهی اسکی بهوک پیاس جیسے آنسوؤں کے ساتھ بہہ گئی تهی اب بهی وہ سامنے رکهے کهانے کو ٹارچ کی روشنی میں دیکھ رهی تهی
"مجهے جانے دو بهائی پلیز خدا کا واسطہ مجهے جانے دو"
سامنے اندهیرے میں کهڑے شخص کے آگے وہ گڑگڑائی آنسو ایک بار پهر اسکا صبیح چہرہ بهگونے لگے
"چپ چاپ کهانا کهاؤں ورنہ"
وہ دهاڑا اس "ورنہ" میں نجانے کونسی دهمکی پوشیدہ تهی کہ وہ اندر تک سہم گئی اور کهانے کی ٹرے کهنچ کر لقمے زہر مار کرنے لگی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
"انسپکڑ صاحب کچھ پتہ چلا میری بیٹی کا"
حمزہ اور علی آفندی اس وقت پولیس اسٹیشن میں تهے
"ابهی تک تو هم کوشش کر رهے هیں آفندی صاحب آپ اطمینان رکهیں هم جلد آپکی بیٹی کو ڈهونڈ لیں گے ڈی آئی جی صاحب خود اس کیس میں پرسنلی انوالو هیں آپ بالکل فکر مت کریں"
انسپکڑ راحیل نے اطمینان دلاتے هوۓ کہا
"پاپا چلیں گهر سب ٹهیک هو جاۓ گا ٹنشن مت لیں آپ"
حمزہ نے آپنے باپ کو اٹهاتے هوۓ کہا جو کچھ هی گهنٹوں میں شکست خورد نظر آنے پہلے بیٹی کا غم اور اب هر جگہ ساتھ دینے والی شریک حیات بهی بے سدھ تهی وہ پوری طرح ٹوٹ چکے تهے
"ثنا کهانا آگے رکهو اور جاؤ حمزہ کو کهانا کهلاؤ تم بیٹا انہیں میں کهلا دوں گی"
مسز احمد نے کہا تو ثنا جو ایمان کی وجہ سے حد درجہ ٹینس تهی سر هلاتی هوئی کمرے سے نکل گئی
"بهائی صاحب کهانا شروع کریں احمد آپ بهی کهائیں آپ هی لوگ همت چهوڑ دیں گے تو همارا کیا هوگا بسم اللہ کریں اللہ هماری ایمان کی حفاظت کریں گے انشااللہ"
مسز احمد نے کہا اور ٹرے ان کے سامنے کردی انہوں نے چپ چاپ کهانا شروع کردیا
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
چند لقمے کهانے کے بعد وہ آدمی خاموشی سے ٹرے اٹها کر لے گیا جبکہ وہ ایک بار پهر اپنی بے بسی پر رو دی کچھ دیر بعد کمرے میں زیرو کا بلب روشن هوگیا هلکی روشنی میں وہ آسانی سے کمرے کا جائزہ لینے لگی
اچها خاصا ویل فرنیشڈ روم تها سنٹر میں ایک ڈبل بیڈ سائیڈ پر لیمپ آف تهے اٹیچ باتھ روم بهی تهی مگر پورے کمرے کی هر چیز سیاہ تهی بالکل اسکی زندگی کی طرح
همت کرکے اٹهی اور هاتھ منہ دهونے واش روم میں گهس گئی شدید سردی میں بهی ٹهنڈے پانی سے نجانے کتنی دیر تک وہ منہ دهوتی رهی جب باهر آئی تب وهیں کونے میں سمٹ کے بیٹھ گئی۔۔۔ تب هی دروازہ کهلا اور کوئی اندر آیا سر اٹها کر جب اس نے دیکها تو اسکی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے هی ره گئی ایک کالے نقاب میں چہرہ چهپاۓ وہ آهستہ آهستہ اسی کی طرف بڑهنے لگا اور وہ بے اختیار کهڑی هوکر پیچهے کی جانب هونے لگی آنسو ایک بار پهر اسکی گالوں پر بہنے لگے "نہیں دور رهو پلیز"
روتے هوۓ دیوار کے ساتھ جالگی جبکہ نقاب پوش کی پیش قدمی جاری تهی
"رحم کرو پلیز مجهے جانے دو"
هاتھ جوڑ کر رحم کی بهیک مانگنے لگی
تب هی وہ اسکے بالکل قریب پہنچ گیا
خوف حدوں کو چهونے لگا دماغ کام کرنا بند کرنے لگا کچھ هی پل میں وہ هوش و حواس کی دنیا سے بیگانہ هوکر اسکی بازوؤں میں جهول گئی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤