کبهی کبهی جب هم بہت زیاده خوش هوں تب تقدیر کو همارا حد سے زیاده خوش هونا برا لگ جاتا هے اور پهر خوشیوں کے پهول چهین کر همارے دامن میں غم کے کانٹے رکھ دئیے جاتے هیں
* * * * * * * *
دلہن بنی بلاشبہ وہ بہت حسین لگ رہی تهی اور وہ اپنے حسن سے بے نیاز سوچوں کے بهنور میں الجهی هوئی تهی۔
اس شادی نے اسکے بہت سے اپنوں کو بے موت مرنے سے بچا لیا تها خود وہ بهی بدنامی کی اتهاہ گہرائیوں میں گرنے سے بچ گئی تهی اور اس سب کے لئے وہ خدا کے بعد اسی ایک شخص کی شکر گزار تهی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
"ثنا یار اب آ بهی جاؤ هم لیٹ هو رهے هیں"ایمان ہاتھ پر بندهی گهڑی دیکهتے هوۓ چلائی
"آ رهی هوں بس دو منٹ"
اوپر سے ثنا کی پرسکون آواز آئی اور وہ اندر تک سلگ گئی
"مری رهو وهیں میں جا رهی هوں آتی رہنا لونگ مارچ کرتی هوئی خود هی"
یہ کہتے هی وہ دروازے کی طرف بڑهنے لگی جب مسز علی کی آواز نے اسکے قدم روکے
"ایمان روکو بچے"
"جی مما"
اور اپنی ماں کے هاتهوں میں لنچ بکس دیکھ کر اسے اپنی ماں پہ ڈهیروں پیار آیا
"هر وقت هوا کے دوش پہ سوار رهتی هو کتنی بار کہا هے ناشتہ کر کے جایا کرو پکڑو یہ"
انهوں نے پیار سے ڈانتے هوۓ لنچ بکس اسکے ہاتھ میں دیا
"او مما یو آر دی بیسٹ آئی لو یو"
وہ مسز علی کے گلے لگ کر بولی
"اگر یہ لو سین ختم هو گیا هو تو چلیں"
ثنا کی آواز پہ وہ پلٹی
"هاں جی محترمہ چلیں"
چاچی آپکو امی اوپر بلا رهی تهیں"
جاتے جاتے ثنا نے مسز علی کو اطلاع دی اور انهوں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور وہ دونوں بیگ سنبهالتی باهر نکال آئیں جہاں ڈرائیوار انکا منتظر تها
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
ثنا اور ایمان کزنز هیں دونوں ایک هی کالج ایک هی کلاس میں پڑهتی هیں دونوں هی اچهی سٹوڈنٹ هیں
ایک هی گهر میں رهنے کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کی بہت اچهی دوست بهی تهیں
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
احمد افندی اور علی آفندی دونوں بهائی امپورٹ اسپوٹ کا بزنس کامیابی سے چلا رهے هیں
احمد آفندی کی ایک هی بیٹی هے ثنا آفندی جو کہ دس سال بعد بہت منتوں مرادوں سے دنیا میں آئی جبکہ علی آفندی کے دو بچے هیں حمزہ آفندی اور ایمان آفندی۔
حمزہ اپنی پڑهائی پوری کر کے باپ اور تایا کے ساتھ بزنس کے گر سیکهنے میں مصروف هو گیا جبکہ ثنا اور ایمان ابهی بی ایس سی کے پہلے سال میں تهی
ثنا کی منگنی بچپن میں حمزہ سے کر دی گئی تهی دونوں اس رشتہ سے خوش تهے۔
*************************
احمد اور علی آفندی کی ایک بہن سارہ آفندی بهی هے جو کہ شادی کے بعد سارہ سلمان بن کر سات سمندر پار انگلینڈ میں بس گئی کبهی کبهار فون پر بات هو جاتی تهی انکا ایک هی بیٹا هے کامران سلمان جو کبهی پاکستان نہیں آیا وہ بهی انگریزوں کے دیس میں اپنے باپ کے بعد انکا بزنس کامیابی سے رن کر رها هے
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
"ایمان اٹهو نا یار کمپیوٹر لیب میں چلتے هیں آج تو سر جہانزیب بهی نہیں آۓ ورنہ تو سارا دن سانپ بن کر کمپیوٹر لیب میں بیٹهے هوتے هیں"
ثنا نے کتابیں بیگ میں ڈالتے هوۓ ایمان سے کہا جو پوری دلجمعی سے نوٹس بنانے میں مصروف تهی
"تو نے کیا کرنا هے لیب میں جا کر اور اگر اچانک سے آ گئے سر تب جو بے عزتی هو گی اسکا کیا"
ایمان نے اسے ڈراتے هوۓ کہا
"گیم کهیلونگی نا میں۔۔۔ اور رهی بات سر کے آ جانے کی تو تو دروازے پہ کهڑی رهنا جب سر نظر آئیں تو بتا دینا بهاگ چلیں گے وهاں سے سمپل" اس نے اپنا پلان بتایا
"اور اگر پکڑے گئے تو؟"اففف ایمان کی بچی جو چیز نہیں هونی اسکا ڈر نکال دے دل سے اور ویسے بهی گیم هی کهیلونگی چوری تو نہیں کرونگی۔ اب تو چل رهی هے یا میں خود هی جاؤں"
وہ اٹهتے هوۓ بولی تو بادل ناخواستہ ایمان کو بهی اٹهنا پڑا۔۔۔
••••••••••••••••••
لیب میں اس وقت کوئی بهی نہیں تها جب وہ دونوں اندر داخل هوئیں ثنا جاتے هی فرنٹ والا کمپیوٹر آن کر کے بیٹھ گئی جبکہ ایمان دروازے پر چوکیداری کے فرائض انجام دینے لگی
"ایمان ادهر آ جلدی" ثنا کی آواز پہ وہ اسکی جانب لپکی
"کیا هے"
"یہ دیکھ سر کی فوٹوگرافز لگتا هے سر کا پرسنل کمپیوٹر هے اور لاکڈ بهی نہیں هے"
ثنا فوٹوگرافز دیکهتے هوۓ بتانے لگی
"ثنا بس کر کسی کی پرسنل چیزیں دیکهنا صحیح نہیں چل چلتے هیں"
وہ اسے اٹهاتے هوۓ بولی
"اففففف ایمان لیکچر مت دے اور سر پر نظر رکھ"
اسے کہتی وہ دوبارہ تصویروں کی جانب متوجہ هو گئی
"ثنا بهاگ سر آ رهے هیں"
ایمان کی آواز پہ وہ چونکی اور جلدی سے سوئچ نکالا اور دونوں نے ٹبیل سے عجلت میں اپنا بیگ اٹهایا اور باهر کی جانب دوڑ لگا دی
اس بهاگم بهاگ رفوچکر هونے کے چکر میں ان کے بیگ میں سے سٹوڈنٹ کارڈ نکل کے وهیں گر گیا اس پر ایک مسکراتی تصویر جگمگا رهی تهی
جہانزیب کے روم میں انٹر هوتے هی انکی نظر کارڈ پر پڑی انہوں نے اٹها کر ایک نظر تصویر اور پهر نام پر ڈالی
"ایمان علی آفندی"
انہوں نے زیر لبانہوں نے زیر لب نام دهرایا اور وہ کارڈ اپنے دراز میں ڈال کر لاکڈ کر دیا۔۔۔
"شکر هے یار سر نے نہیں دیکها ورنہ آج تو واٹ لگ جاتی"
ثنا نے اپنے اور ایمان کے مشترکہ بیڈ روم کے بیڈ پر بیٹهتے هوۓ کہا
"مگر یار اگر سر کو پتہ چل گیا تو؟"
ایمان نے ڈرتے هوۓ اپنے نادر خیالات کا اظہار کیا
"اففف توبہ هے ایمان سر کو کیسے پتہ چلے گا نہ تم بتاؤ گی نہ میں اور اس ایڈونچر میں کوئی تیسرا شامل هی نہیں تها تو سر کو پتہ چلنے کا سوال هی پیدا نہیں هوتا اس لئیے ڈونٹ ٹیک ٹینشن بی ریلکس"
ثنا نے اطمینان سے جواب دیا
"اللہ کرے نا هی پتہ چلے آمین"
"ثم آمین"
دونوں نے سچے دل سے دعا کی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
اگلے دن سنڈے تها اور سنڈے کو وہ دونوں کچن کو دیدار کا شرف بخشتیں تهیں اور ان کے کچن سے نکلنے کے بعد سکینہ کو یہ بکهیڑا سمیٹنے میں دو گهنٹے تو لگ هی جاتے تهے ابهی بهی وہ دونوں کچن میں موجود تهیں سامنے شلف پر کک بک کهلی پڑی تهی اور وہ دونوں آج کے لنچ اور ڈنر کے مینو پر تبادلہ خیال کر رهی تهیں
"میرے خیال سے آج چکن بریانی اور کڑاهی بنا لیتے هیں لنچ میں اور ڈنر میں کباب اور کوفتے کیسا رهے گا یہ مینو؟"
ثنا نے پر سوچ انداز میں ایمان سے کہا۔۔۔
"هاں خیال تو نیک هے مگر اس بار هم زیاده زلزلہ نہیں مچائیں گئے یہاں اوکے"
ایمان نے ثنا کو تنبیہہ کی
"اففف ایمان هم جان بوجھ کے تهوڑی نہ ایسا کرتے هیں خودبخود هی هو جاتا هے"
ثنا نے شرمندہ لہجے میں کہا
"آج تو لگتا هے کهانا هم هوٹل سے هی منگوا لیں"
حمزہ کی آواز پر وہ دونوں چونکیں جو کہ اب فریج سے پانی کی بوتل نکال رہا تها ساتھ هی ثنا کو گہری نظروں سے بهی دیکھ رها تها
رف سے حلیے میں بالوں کو کیچر میں قید کئے اپیرن باندهے دوپٹہ سے بے نیاز وہ بہت کیوٹ لگ رهی تهی
"جی نہیں محترم آج تو آپ هوٹل کا کهانا بهول هی جائیں گے جسٹ ویٹ اینڈ واچ"
اسکی نظروں سے بے نیاز وہ گوشت کو علیحدہ کرنے میں مصروف تهی
"هاں بهائی آج تو آپ بس دیکهتے جاؤ همارے هاتهوں کا کمال انگلیاں چاٹتے رہ جاؤ گے"
ایمان بهلا کہاں پیچهے رہنے والی تهی
"اچها جی دیکهتے هیں"
حمزہ بوتل فریج میں دوبارہ رکهتے هوۓ بولا
"جی جی دیکھ لینا اب آپ ذرا تشریف لے جائیں اور ویٹ کریں"
ثناء اب بهی بناء نظر اٹهاۓ بولی
"اوکے جی کر لیتے هیں ویٹ بهی"
یہ بول کر وہ کچن سے نکل گیا اور وہ دونوں اپنے اپنے کام میں مصروف هو گئیں۔۔۔۔۔
اور پهر واقعی لنچ اتنا مزیدار تها کہ سب کو ماننا پڑا سب نے دل کهول کر تعریف کی اور پهر اسی خوشی میں ان دونوں نے احمد اور علی آفندی سے شاپنگ کے پیسے بهی لے لئے۔
وہ دونوں اس وقت بریک ٹائم میں کنٹین میں بیٹهی هوئیں تهیں جب جونئیر کلاس کی ایک لڑکی نے آکر ان کے سر پر بم پهوڑا
"ایکسوزمی آپ ایمان علی آفندی هیں؟"
بے حد شائستگی سے پوچها
"جی ہاں کیوں"
کوک کی بوتل سے سیپ لیتے هوۓ بولی
"آپ کو سر زیب کمپیوٹر لیب میں بلا رهے هیں"
اطمینان سے جواب دیا گیا اور اس جواب پر بوتل پیتی ایمان کو اچهو لگ گیا جبکہ ثنا کا بهی رنگ فق هو گیا
"کک۔ ۔ ۔ کیوں بلا رهے هیں" ڈرتے هوۓ سوال کیا گیا
"پتہ نہیں"
"صرف مجهے هی بلایا هے؟"
ایک اور سوال
"جی هاں"
جواب دے کر وہ لڑکی چلی گئی جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکهنے لگیں
"یار اب کیا هو گا"
ثنا نے گهبراتے هوۓ پوچها
"مجهے کیا پتہ میں نے منع کیا تها تمهیں مگر باز نہیں آئی تم"
ایمان نے غصے سے ثنا کو کہا اور وہ بس سر جهکا کر رہ گئی
"اچها اب زیادہ شرمندہ مت هو اور چلو تم کلاس میں اور میں آتی هوں لیب سے هو کے"
اور وہ دونوں بیگ سنبهالتی کنٹین سے نکلنے لگیں
¤ ¤ ¤ ¤ ¤
"مے آئی کم ان سر؟"
کانپتی آواز میں اجازت طلب کی گئی
"یس کم ان پلیز"
گمبهیر آواز میں جواب آیا اور ایمان کا وجود کانپ کے رہ گیا
"سر آپ نے بلایا؟"
بظاهر اعتماد سے پوچها گیا
"پلیز هیو آ سیٹ"
سامنے پڑی کرسی پر بیٹهنے کا اشارہ کرتے هوۓ کہا
"کیا آپ بتانا پسند کریں گی مس آفندی کے سیچرڈے کو آپ یہاں کیا کر رهیں تهیں؟"
فائل بند کرتے هوۓ انہوں نے پوچها
"وہ ۔ ۔ ۔ می میں سر میں یہاں نہیں آئی تهی"
ہکلاتے هوۓ جواب دیا
"مس آفندی جهوٹ سے مجهے سخت نفرت هے"
سخت لہجے میں کہا گیا
"سر میں نہیں آئی تهی یہاں انفیکٹ میں سیچرڈے کو کالج هی نہیں آئی تهی"
ایک بار پهر اعتماد سے جهوٹ بولا گیا
"اچها۔۔۔۔ تو آپکے کارڈ کو پڑهائی کا زیادہ شوق هے خود هی اچهلتا کودتا یہاں تک آ گیا هے نا"
اسکا کارڈ میز پر رکهتے هوۓ بولے
اور کارڈ دیکھ کر ایمان کو ٹهنڈے پسینے آ گئے
"اتنا پکا ثبوت اللہ جی بچا لینا"
آنکهیں بند کرتے هوۓ دعا کی
"مس آفندی اب آپ سچ بتانا پسند کریں گی"
تیز لہجے میں پوچها
"آئی ایم سوری سر مجهے اسائنمنٹ کے لئے پوائنٹز سرچ کرنے تهے اس لئے"
وہ سر جهکا کر بولی
"اٹس اوکے مس آفندی آئندہ خیال رهے یو مے گو ناؤ"
اور وہ باهر بهاگی۔۔۔۔
••••••••••••••••••••
"شکر هے بات سنبهال لی تم نے ورنہ اگر انکو پتہ چل جاتا کہ هم گیم کهلینے گۓ تهے تب تو پتہ نہیں کیا هو جاتا"
ثنا نے اطمینان کا سانس لیا
اس وقت وہ دونوں سونے کے لۓ لٹیں تهیں جب ایمان نے لیب کا واقعہ اسکے گوش گزار کیا
"بس دیکھ لو میری ذہانت"
ایمان نے فرضی کالر جهاڑے اور دونوں ہنس پڑیں
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
"مما تائی ماں جلدی سے تیار هو جائیں آپ لوگوں کے پاس پندرہ منٹ هیں"
سب لوگ اس وقت لان میں بیٹهے شام کی چاۓ سے لطف اندوز هو رهے تهے جب ایمان نے آکر دهماکہ کیا
"ارے کیوں بهئی کس خوشی میں تیار هو جائیں"
مسز احمد نے خوشگوار موڈ میں پوچها
"کیوں کہ هم سب شاپنگ پر چل رهے هیں اور شاپنگ پر اس لیے جا رهے هیں کیونکہ هم بور هو رهے هیں"
ایمان نے مسز احمد کے گلے میں بانهیں ڈالتے هوۓ کہا اور وہ مسکرا دیں
"هاں بهابی تهوڑی شاپنگ مجهے بهی کرنی تهی چلتے هیں کیا خیال هے"
مسز علی نے کہا تو انہوں نے اثبات میں سر هلا دیا
"چلو ایمان ثنا کو بهی بلا لو هم جب تک تمهارے پاپا اور انکل کو بتا دیں
اور ایمان ثنا کو لینے دوڑی شاپنگ دونوں کی کمزوری تهی اور آج جب دونوں کی مائیں بذات خود راضی هو گئی هیں تو وہ یہ چانس مس نہیں کرنا چاهتیں۔۔۔۔