بابا جی منہ میں کچھ پڑھتے ہوۓ جلدی سے اس کمرے میں پہنچے جو ایک بہت بڑا ہال نما کمرہ تھا اور جسکی ساری دیواریں کالے رنگ کی تھیں
سامنے کی دیوار کے پاس دیوہیکل کالی کا بت نصب تھا
جس کے پاؤں کے آگے قربان گاہ بنائی گئی تھی جو خون سے بھری ہوئی تھی اور پورے ہال میں گندگی اور خون کی بدبو پھیلی ہوئی تھی
بابا جی نے جلدی جلدی میں کچھ پڑھ کر بت کی طرف پھونکا تو بت سے چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں ایسے لگ رہا تھا جیسے کٸ بدروحیں مل کر بین کر رہی ہوں
باباجی ندا کے ہنسنے اور پنڈتوں کے اشلوک پڑھنے کی آوازوں کی سمت کا اندازہ کرکے آگے بڑھے اور بت کے پاٶں کے پاس بنا ہوا خفیہ لیور کھینچ دیا
گڑگڑاہٹ کی آواز ابھری اور بت کے پیچھے چوکور سا خانہ بن گیا جہاں سے تہ خانے کی سیڑھیاں نظر آنے لگ گئی
باباجی بےدھڑک سیڑھیاں اتر گٸے
جب کہ تینوں پنڈت جو گڑگڑاہٹ کی آواز سن کر منتر چھوڑ سیڑھیوں کی طرف متوجہ ہوۓ تھے گھبرا کر جلدی سے اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے
وہ اتنی جلدی باباجی کے اندر پہنچنے کی امید نہیں کر رہے تھے
ندا اپنی جگہ پر آرام سے بیٹھی ابھی تک ہنس رہی تھی اس کے آگے آگ کا الاؤ جل رہا تھا اور اس کے قریب ایک لمبا سا بڑے پھل کا چاقو پڑا ہوا تھا جسے وہ اٹھا کر اس کی دھار پہ ہاتھ پھیر رہی تھی
بابا جی کو دیکھ کر تینوں پنڈت بوکھلا گۓ اور اونچی آواز میں کوئی منتر پڑھنے لگے
جب کہ باباجی اپنی پڑھائی مکمل کر کے اب اطمینان سے کھڑے ہو کر مسکراتی نظروں سے ان کی گھبراٸی ہوٸ شکلیں دیکھ رہے تھے
وہ لوگ منتر پڑھنے کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو گول گول داٸرے کی شکل میں گھما رہے تھے جہاں سے کالا دھواں نکل نکل کر باباجی کے اردگرد پھیلنے لگا
مگر وہ مطمٸن سے کھڑے ندا کی طرف دیکھ رہے تھے جو کہ ان سب سے بے نیاز چاقو کی دھار پر ہاتھ پھیر رہی تھی
جیسے ہی باباجی نے ندا کی طرف قدم بڑھاۓ تو ان میں سے ایک پنڈت گرجا
وہیں رک جاؤ مولوی !
ہمارے کام میں دخل اندازی مت کرو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا
یہ کہہ کر اس نے اپنی مٹھی باباجی کی طرف کرکے کھولی تو اس کی انگلیوں سے بجلی نکل کر باباجی کی طرف لپکی مگر دھوٸیں کے مرغولے سے ٹکرا کر بجھ گٸ
جب کہ باباجی اطمینان سے کھڑے ہو کے اس دھوئیں کو ملاحظہ کررہے تھے
ان کا اطمینان دیکھ کر ایک پل کے لئے تو اس پنڈت کے چہرے پر گھبراہٹ آئی مگر دوسرے پل وہ بڑے غرور سے زمین پر پاٶں مار کر بولا
شانگلی چڑیل اس مورکھ کو جلا کر بھسم کردے
زمین پھٹی اور اندر سے چاروں ہاتھوں پاٶں پر چلتی ہوٸی گھناٶنی سی عورت باہر نکلی جس کے ٹھوڑی تک لمبے دانتوں پر سے رال ٹپک رہی تھی
سر پر گنتی کے چار لمبے بال چہرہ بغیر گوشت کے اور مڑے ہوۓ ہاتھ پاٶں کے ساتھ اچھلتی ہوٸی باباجی کی طرف لپکی
مگر اچانک جیسے کسی نایدہ یوار سے ٹکرا کر اچھل کر دور جا گری اور بھیانک آواز میں چلاتی ہوٸی دوبارہ سے بھاگی مگر اس بار اسے اس کالے دھویں سے زور کا کرنٹ لگا جو باباجی سے ایک فاصلے پر اردگرد گھوم رہا تھا اور آگے نہیں بڑھ پارہا تھا
اتنے میں کہیں سے بہت سے کالی بلیاں وارد ہوٸی اور چڑیل کے ساتھ مل کر دھویں کی طرف بڑھی
دھواں بھی اب سمٹ کر ایک جگہ ہیولے کی شکل میں جمع ہوگیا تھا
اب کا منظر اور بھی دل دہلانے والا تھا بلیاں بڑھتے بڑھتے کتوں کے ساٸز کی ہوگٸ تھیں اور ان کے دانت بھی کتوں کی طرح بڑھ کے باہر نکل آۓ تھے
دیکھتے ہی دیکھتے سب بھیانک آوازیں نکالتے ہوۓ آپس میں لڑنے لگے
پنڈت حیرت سے اپنے چیلوں کو دیکھ رہے تھے جو آپس میں ہی لڑ لڑ کے ختم ہو رہے تھے جبکہ بابا جی ابھی بھی اطمینان سے کھڑے متبسم نظروں سے ان پنڈتوں کی طرف دیکھ رہے تھے جن کا دھیان ان سے ہٹ گیا تھا
انہوں نےآگے بڑھ کر ندا کے ماتھے پر اپنا داٸیں ہاتھ کا انگوٹھا رکھا اور زیر لب کچھ پڑھنے لگے
پھر تو جیسے طوفان ہی آگیا طرح طرح کے کیڑے مکوڑےزمین سے نکل کر پنڈتوں کی طرف بڑھنے لگے
اتنا شور تھا کہ کان پڑی آوازیں سناٸی نہیں دے رہی تھیں۔
ندا بیہوش ہوچکی تھی۔پنڈتوں نے جب دیکھا کہ انکا عمل خراب ہوگیا ہے اور انکا ہر وار الٹا پڑ گیا ہے اور اب ان کیڑے مکوڑوں سے ان کی موت یقینی ہے تو بوکھلاہٹ میں ہتھیار اٹھاکر باباجی کی طرف لپکے
ہم ہار نہیں مانیں گے مولوی۔ ہم تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے تم نے ہمارے کیۓ کراۓ پر پانی پھیر دیا
اتنا کہہ کر جیسے ہی ان میں سے ایک نے چاقو والا ہاتھ باباجی پر اٹھایا تہ خانے کی دیواریں گولیوں کی گونج سے لرز اٹھیں
پولیس اہلکار تہ خانے کی سیڑھیوں پر کھڑے اندھا دھند گولیاں برساکر ان پنڈتوں کو چھلنی کر چکے تھے اور سارے کیڑے مکوڑے بھاگ کر ان کی لاشوں کو نوچنے کیلٸے ان پر چڑھ دوڑے تھے
ایک بہادر اہلکار نے نیچے اتر کر بیہوش ندا کو اٹھایا اور باہر دوڑ لگا دی
باقی سب بھی جلدی سے باہر نکل آۓ
اندر سے ابھی بھی بھیانک آوازیں آرہی تھیں
باباجی کی ہدایت پر پولیس اہلکاروں نے ہی تہ خانے میں تیل کے ڈرم لڑھکا کر فاٸر کر دیٸے جس کے بعد اندر سے دھماکوں کی آوازوں کے ساتھ پوری پہاڑی وادی لرزنے لگی
سب لوگ جلدی وہاں سے آبادی کی طرف روانہ ہوگۓ
اگلے دن تک سب کچھ ٹھیک ہوچکا تھا
جن کی بچیاں ان شیطانوں کا شکار ہوچکی تھیں ان کا نقصان تو پورا نہیں ہو سکتا تھا
مگر اب وادی والوں نے آٸندہ کسی بھی اجنبی کو وادی میں پناہ دینے سے توبہ کرلی تھی
ندا کو اپنی گمشدگی کا کچھ یاد نہیں تھا اور نہ کسی نے اسے کچھ بتایا
وہ تینوں بھی اپنے چینل کے مالک کے ساتھ واپس اپنے شہر پہنچ گۓ تھے اور اب گھروں میں بیٹھ کر چھٹیاں مناتے ہوۓ اگلے کسی ایڈونچر کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
ایک رات کسی احساس کے تحت ندا کی اچانک آنکھ کھل گٸ دیکھا تو اس کے پاٶں کی طرف کوٸی کالے لباس والی عورت سر جھکاۓ بیٹھی تھی
کون ہو تم؟
ندا کے درشتی سے پوچھنے پر اس نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا تو اسکی شکل دیکھ کر ندا کے رونگھٹے کھڑے ہوگۓ
لمبوترے چہرے پر جھریاں پڑی ہوٸی تھیں ایک آنکھ کا ڈیلا باہر لٹک رہا تھا کان لٹک کر کندھوں پر جھول رہے تھے اور وہ اپنی سانپ جیسی زبان باہر لہرا کر ندا کی طرف دیکھ کر ہنس دی
ندا نے بے اختیارچیخنا شروع کر دیا اور جب تک اسکے گھر والے آۓ وہ چلا چلا کر بیہوش ہوچکی تھی
اسکی ماما نے جلدی سے اسکے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اور جیسے ہی وہ ہوش میں آٸی
اس سے چلانے کی وجہ پوچھی تو جیسے ہی وہ بتانے لگی اسکی نظر ڈریسنگ ٹیبل کی طرف پڑی جہاں وہ بھیانک عورت شیشے کے سامنے بیٹھی اسی کو دیکھ کر ہنس رہی تھی
اسنے شیشی کی طرف اشارہ کرکے پھر سے چلانا شروع کر دیا
اسکی ماما کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان کی بیٹی کو ہو کیا گیا ہے کیونکہ انہیں تو وہاں کچھ بھی دکھاٸی نہیں دے رہا تھا
اب تو یہ معمول بن گیا تھا وہ عورت ہر وقت ندا کے آس پاس بھٹکتی رہتی اور ندا چیختی چلاتی چیزیں اٹھا اٹھا کر دیواروں پہ مارتی رہتی
وہ نیم پاگل ہوگٸی تھی
اس کے گھر والے اسکا علاج کروا کروا کر تھک گۓ مگر کچھ فرق نہیں پڑا
وہ شیطان کی قربانی سے بچ کر واپس آ تو گٸ تھی مگر وہ شیطان کا شکار تھی
سو وہ کیسے اپنا شکار چھوڑ سکتا تھا اسی لیے اس نے اپنی خاص چیلی ندا کے سر پر مسط کردی تھی
اب بس شیطان کو اس خاص گھڑی کا انتظار تھاجب وہ ندا کو قربانی کیلیے اٹھا کے لے جاتا
اور جس پر شیطان کی نظر پڑ جاۓ وہ کہاں سکون پا سکتے بھلا
ایسے ہی تو نہیں شیطان مردود سے پناہ مانگنے کی ہدایت کی گٸ۔
اللّٰه پاک ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین
ختم شد