کیونکہ تصویر میں بہت خوفناک شکل کی لڑکی کا چہرہ نظر آ رہا تھا جو سفید ڈیلوں بکھرے بالوں اور خون آلود چہرے کے ساتھ اپنے خون سے سنے ہوئے ہاتھوں کو چاٹتے ہوئے کیمرے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی جبکہ حقیقت میں وہ لڑکی ابھی تک ان کی طرف پشت کر کے بیٹھی تھی
یہاں آنے سے پہلے تینوں یہاں کے حالات جان کر بہت ہنسے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ سب حکومت کی توجہ حاصل کرنے کے لیے افواہیں اُڑائی جا رہی ہیں مگر یہاں آ کر حالات کی سنگینی کا احساس ہو رہا تھا
ندا کے ایک دم پیچھے گرنے پر عادل اور صارم جلدی سے اس کی طرف بڑھے اور گرنے کا سبب پوچھا جس پر ندا نے خاموشی سے تصویر ان کی طرف بڑھا دی اور ہکلاتے ہوئے بولی یہ تو زومبی ہے
تصویر کو دیکھ کر ان دونوں کی بھی سٹی گم ہوگئی کیونکہ لڑکی ایک بار بھی ان کی طرف پلٹی نہیں تھی پھر کیمرے میں اسکا چہرہ کیسے آگیا اور اسکی جتاتی ہوٸی نظریں
جیسے وہ ان کی یہاں موجودگی اور کیمرے کے بارے میں بھی جانتی ہو اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور تینوں اپنی اپنی جگہ پر اچھل پڑے پھرصارم نے ہی ہمت کر کے پوچھا کہ کون ہے تو ویٹر کی آواز سن کر ان سب کی جان میں جان آٸی
ویٹر کھانا رکھ کے جانے لگا تو صارم نے اسے روکا اور اپنا تعارف کرواکے یہاں کے حالات جاننے کے لیے اس کی مدد طلب کی
ویٹر پہلے تو خاموش رہا پھر بولا سر آپ لوگ کھانا کھا لیں اگر چائے پینی ہوئی تو بتاٸیے گا میں بنا کر لے آؤں گا پھر سارے حالات بتاوں گا
ندا کی تو ڈر کے مارے بھوک ہی اڑ گٸ تھی مگر ان دونوں کے اصرار پر اس نے بھی تھوڑا سا کھانا کھا لیا اور چائے کے لیے کال کر کے خاموشی سے بیٹھ گئے
وہ لوگ دن ڈھلے یہاں پہنچے تھے اور اب شام کی اذان کا وقت ہو گیا تھا مگر گلیاں بازار اور عبادت گاہیں تک ویران پڑی تھی چائے آنے کے بعد تینوں ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھ گئے اور ویٹر کے بولنے کا انتظار کرنے لگے ویٹر نے بھی پہلے وہی کہانی دہرائی جو وہ جانتے تھے صارم نے اسے بتایا کہ اتنی کہانی وہ جانتے ہیں اور اس کے آگے کے حالات جاننا چاہتے ہیں
ویٹر گلہ کھنگار کر بولا
سردار کی لڑکی کے غائب ہونے کے بعد خونی پنجوں کا سلسلہ چل پڑا ہر چوتھے دن ایک نوجوان لڑکی غائب ہو جاتی ہے اور اگلے دن کٹے پھٹے نیلے سوجے ہوۓ چہرے اور بدن کے ساتھ واپس آتی ہے اور اپنا گوشت نوچ نوچ کر کھانے لگتی ہے اور اگلے دن ہمیشہ کیلیۓ غاٸب ہو جاتی ہے اور ہاں اب تک جتنے بھی لوگ غاٸب ہوئے ہیں وہ سب نوجوان لڑکیاں ہی تھی یعنی کہ وہ پنجے صرف نوجوان لڑکی کو ہی لینے آتے ہیں اور صرف اس گھر پر دستک دیتے ہیں جس گھر سے لڑکی غائب ہونی ہوتی ہے اور ہوتا بھی یہی ہے
سننے میں آیا ہے کہ جیسے ہی وہ خونی ہاتھ دستک دیتے ہیں لڑکی کی آنکھوں کا رنگ بدل جاتا ہے پتلیاں سفید ہو جاتی ہیں اور وہ مجھے بلا رہے ہیں مجھے جانا ہوگا کہتے ہوئے زبردستی اپنے آپ کو چھڑا کے باہر بھاگتی ہے اور غائب ہو جاتی ہے
اور دوسرے دن اس کا بغیر ہاتھوں کے ڈھانچہ بھی پہاڑیوں میں ملتا ہے پھر کچھ دن سکون رہتا ہے اور دوبارہ سے وہی سب شروع ہوجاتا ہے کچھ لوگوں نے یہاں سے بھاگنے کی کوشش کی کہ وہ کہیں اور چلے جائیں مگر ان کی گاڑیوں کے حادثے ہوجاتے اور وہ یا تو مر جاتے ہیں یا پھر معذور ہو کر واپس آ جاتے ہیں
اتنا بتا کے ویٹر خاموش ہوا تو صارم بولا یہ سب کتنے عرصے سے چل رہا ہے اور اس سب کی کوئی وجہ تو ہوگی کیا یہاں کچھ غیرمعمولی ہوا تھا جو ایسے حالات بن گئے نہیں تو ایسا تو کچھ خاص نہیں ہوا ویٹر سوچتے ہوئے بولا ہاں مگر کچھ عرصہ پہلے یہاں انڈیا سے کچھ پنڈت آئے تھے جو بعد ازاں یہاں ہی رہ گئے
پہلے پہل انہوں نے ہندوؤں کو مسلمانوں سے میل جول رکھنے سے منع کیا یہ کہہ کہ یہ ان کے دھرم کے خلاف ہے اور ان کے بھگوان برا مان جائیں گے وہ ان شودروں یعنی مسلمانوں سے تعلق ختم کر دیں ورنہ ان پر عذاب آئے گا مگر ان کی بات کسی نے نہیں سنی
بھلا وہ کل کے آۓ پنڈتوں کے کہنے پر اپنے صدیوں پرانے میل جول کیسے ختم کر دیتے وہ بھی بنا کسی وجہ کے
غصے میں آکر وہ ہندو پنڈت پہاڑی غاروں میں چلے گئے اور وہاں ہی کسی غار میں مندر بنا کر رہنے لگے اور پھر کچھ دن کے بعد یہ سب شروع ہوگیا کچھ توہم پرست ہندوؤں نے یہ سوچا کہ شاید ان کی کسی دیوی ماں کا عذاب آیا ہے
وہ لوگ پہاڑوں میں ان پنڈتوں سے معافی مانگنےگۓ مگر وہاں انہیں کوئی غار نہیں ملا اور وہ پہاڑوں میں ان پنڈتوں کو آوازیں دے دے کر ناکام ہو کر لوٹ آئے
ہمم تو یہ سب ان ہندو پنڈتوں کا کیا دھرا ہے صارم پرسوچ نظروں سے بولا ایک بات سمجھ نہیں آئی ہندو تو ہوتے ہی بد عقیدہ ہیں لیکن مسلمانوں کو کیا ہوا انہوں نے مسجدیں کیوں ویران کردی؟ ان کے ایمان اتنے کمزور تھے؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ قرآن کریم میں ہر جادو کا توڑ ہے
سر ڈر ہر چیز پر حاوی ہو کر عقل سلب کر دیتا ہے یہ سب سیدھے سادے لوگ ہیں دھوکے فریب سے دور تو اسطرح کی آفت پہ وہ گھبرا کے سب دین دھرم بھول گۓ اور ڈر باقی رہ گیا ویٹر نے جواب دیا
ہاں صحیح کہہ رہے ہو مگر اب ہمیں کچھ تو کرنا ہوگا سب سے پہلے تو ہمیں وادی میں جگہ جگہ کیمرے لگانے ہوں گے اور دیکھنا ہوگا کہ وہ خونی ہاتھ کہاں سے آتے ہیں اور کدھر جاتے ہیں کیا تم ہمیں وادی کے داخلی اور خارجی راستوں تک رہنمائی کر سکتے ہو تاکہ ہم وہاں پر کیمرے لگا سکیں
ہاں سر کل دن گیارہ بجے کے میں آجاؤں گا ناشتہ کرنے کے بعد میں آپ لوگوں کو لے چلوں گا آج رات آپ لوگ آرام سے سوئے اور رات کے وقت کمرے کا دروازہ نہیں کھولٸے گا نہ کھڑکی کھولٸے گا کچھ بھی ہو جائے نہ باہر نکلٸے گا یہ کہہ کر ویٹر برتن اٹھا کے چلا گیا
وہ لوگ خاموشی سے بیٹھ کر سوچوں میں ڈوبے رہے
رات سکون سے گزر گئی پہلے پہل تو وہ ڈرتے رہے مگر آدھی رات تک جب کچھ بھی نہ ہوا تو وہ لوگ آرام سے سو گئے اور دن چڑھے تک سوتے رہے اگلی صبح 11 بجے سے پہلے ویٹر ان کے لئے ناشتہ لے کر آ گیا ناشتہ کرنے کے بعد ان سب نے اپنا اپنا ضروری سامان اٹھایا اور ویٹر کے ساتھ چل پڑے
دن کا وقت تھا مگر خاموشی ایسے چھاٸی تھی جیسے یہاں پر کوئی ذی روح نہیں رہت گلیوں میں سے گزرتے ہوئے کسی بچے کے رونے کی ہلکی سی آواز آتی تھی تو فوراً اس آواز کا گلا گھونٹ دیا جاتا تھا سارا دن لگا کر انہوں نے وادی کے سارے داخلی اور خارجی راستوں پر کیمرے لگا دیے تھے اور تھک ہار کر واپس ہوٹل آ کر بیٹھ گئے تھے رات کے کھانے کے بعد وہ لوگ تھوڑی دیر باتیں کرتے رہے اور پھر سونے کے لئے لیٹ گئے مگر جیسے ہی رات کا اندھیرا پھیلا گلیوں بازاروں میں چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں ایسے لگ رہا تھا جیسے بہت سارے لوگ مل کر دہائی دے رہی ہوں بھوک لگی ہے گوشت دو پیاس لگی ہے خون دو
ڈر کے مارے وہ تینوں بھی اپنے بستروں میں دبک گئے کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اٹھ کر کھڑکی پر جا کر ہی دیکھ لیتا صبح پانچ بجے تک یہی چلتا رہااور پھر ایک دم ساری آوازیں آنا بند ہو گئیں اور اتنا سکون سکوت چھا گیا کے سوئی بھی گرے تو اس کی بھی آواز آئے
اگلے دن ویٹر کے آنے پر ہی ان لوگوں نے کمرے کا دروازہ کھولا
کیا آج بھی کوٸی لڑکی غاٸب ہوٸی ہے ندا ویٹر سے مخاطب ہوٸی
ضرور ہوٸی ہوگی میڈم مگر پچھلے چھے ماہ سے اتنی لڑکیاں غاٸب ہوٸی ہیں کہ اب تو لوگ دن میں بھی یہ جاننے باہر نہیں نکلتے کہ کس کی لڑکی گٸ
ندا کا تو گلا خشک ہوگیا تھا سن کر
وہ سب ناشتہ زہر مار کر کے ہوٹل سے باہر آئے ویٹر آج بھی ان کے ساتھ تھا سب نے ساتھ مل کے کیمرے اتارے اور واپس ہوٹل آ کر لیپ ٹاپ پہ ریکارڈنگ چیک کرنے لگے دن کی ریکارڈنگ تو خالی تھی مگر رات کی ریکارڈنگ دیکھنے والی تھی
دور سے ایسا لگ رہا تھاجیسے شمالی پہاڑ والی سائیڈ سے کوئی کیڑے مکوڑوں کی فوج چلی آرہی ہوں مگر نزدیک آنے پر پتہ چلا وہ بہت سارے ہاتھ تھے پنجوں سے کٹے ہوئے خون آلود ہاتھ جو اپنی انگلیوں کے بل چلتے ہوئے آرہے تھے اور جیسے ہی وہ ہاتھ آبادی میں داخل ہوۓ عجیب سا شور مچ گیا اور اس کے آگے کیمرے بند ہو گۓ
اب یہ تو طے ہوگیا تھا کہ جو کچھ بھی ہے وہ شمالی پہاڑی والی سائیڈ پے ہے اب سوچنا یہ تھا کہ ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے تینوں نے اگلے دن پہاڑوں میں جانے کا فیصلہ کیا اگلے دن وہ لوگ ویٹر کو لے کے شمالی پہاڑ والی سائیڈ پر چلے گئے راستے میں جگہ جگہ تازہ خون اور گوشت کے لوتھڑے نظر آرہے تھے جن سے بچ کر وہ لوگ اپنی ناک پر رومال رکھے پہاڑوں کی طرف داخل ہوئے اور وہاں سارا دن مارے مارے پھرتے رہے لیکن کہیں سے بھی کوئی سراغ ہاتھ نہیں لگا تھک کر ہوٹل واپس آ گئے ویٹر کے کہنے کے مطابق اب اگلی دفعہ ان پنجوں نے تین دن کے بعد آنا تھا سو دو دن انھوں نے ہوٹل میں بیٹھ کر چینل والوں سے رابطے کی کوشش میں گزارے اور آخر کار ویڈیو ای میل کرنے میں کامیاب ہوۓ اور سارے حالات بھی لکھ بھیجے
تیسرے دن کی صبح انھوں نے شمالی پہاڑوں میں جاکے ساری وادی میں جگہ جگہ خفیہ کیمرے لگا دیے ساتھ ساتھ اپنے دل میں قرآنی آیات کا ورد بھی کرتے رہے کیونکہ وہ جانتے تھے یہ جو کچھ بھی ہے یہ کالا جادو ہے اور کچھ بھی نہیں
اس رات پھر سے وہی شور شرابہ جاری رہا اور وہ لوگ اپنے کمرے میں پڑے سنتے رہے
اگلے دن جب وہ لوگ کیمرے لینے گۓ تو وہاں کیمروں کی جگہ پہ ان کے ٹوٹے ہوۓ ٹکڑے پڑے تھے
تمام کے تمام کیمرے توڑ دیۓ گۓ تھے اور یہ کسی غیر انسانی مخلوق کا کام تو بالکل بھی نہیں تھا