منہ دھو کر جیسے ہی میں نے شیشے کی جانب دیکھا تو مجھے اپنے چہرے پر خون کے دھبے دکھائی دیئے۔ میں نے دوبارہ اچھے سے منہ دھونے کے بعد واپس شیشے میں دیکھا تو ایک شدید جھٹکے کے ساتھ جا کر دروازے پر لگا ۔ شیشے میں وہی سائے کی طرح مدھم دکھنے والی پراسرار مخلوق کھڑی تھی۔ میں نے جلدی جلدی دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو لاک نہ ہونے کے باوجود دروازہ نہیں کھل رہا تھا۔ دوبارہ آئینے پر نظر پڑی تو وہ مخلوق آہستہ آہستہ آئینے سے باہر نکل رہی تھی، اب ڈر کے مارے میں نے ساتھ چیخنا بھی شروع کر دیا کہ شاید میری آواز سن کر کوئی میرے کمرے میں آ جائے لیکن بے سود کیونکہ میرا کمرہ اوپر تھا اور رات کے دو بجے نیچے گھر میں کون جاگ رہا ہوگا۔
ایک دم میرا ڈر خودبخود بہت کم ہو گیا، وہ مخلوق چلی گئی ہے اور محسوس ہونے لگا جیسے اب سب کچھ نارمل ہو گیا ہے۔ میں نے دوبارہ اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ ڈرتے ڈرتے پیچھے دیکھا تو پیچھے واقعی کوئی نہیں تھا۔ میں آہستہ سے چلتے چلتے بیسن کی طرف گیا، شیشے میں دیکھا تو سب کچھ بالکل نارمل تھا ایسے جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے کمرے میں جانے کے لئے جیسے ہی اس دروازے کی طرف مڑا تو سامنے کا منظر دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میری روح میری جان سے نکل رہی ہے اور میں بالکل دم بخود کھڑا اپنی موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ سامنے اب نہ صرف وہی سائے کی طرح دِکھنے والی مخلوق کھڑی تھی بلکہ اس کے ساتھ وہی تینوں لڑکیاں جن کی موت ابھی کچھ دن پہلے ہی بہت عجیب و غریب اور غیر معمولی طریقے سے ہوئی اپنی اُسی حالت میں کھڑی تھیں جس حالت میں انکی موت ہوئی تھی۔
ایک لڑکی کے گردن میں رسی تھی جس سے اس نے خودکشی کی تھی اور اس کی ٹانگیں اب بھی زمین کی بجائے ہوا میں بالکل اسی طرح لٹک رہی تھیں جیسے میں نے ویڈیو میں دیکھی تھی۔ دوسری لڑکی جس کی موت دفتر میں ہوئی تھی اس کے چہرے اور آنکھوں سے خون بہہ رہا تھا اور اس سے پہلے مرنے والی لڑکی کا سر ہی دھڑ سے الگ تھا اور یہ تینوں وحشت ناک لاشیں خون سے لت پت اُس سائے جیسی مخلوق کی پیروی کرتے ہوئے اب باقاعدہ میری جانب بڑھ رہی تھیں۔
مرتا کیا نہ کرتا، میں نے آخری دفعہ ساری طاقت لگا کر بہت زور سے چیخنے کی کوشش کی تاکہ کوئی میری آواز سن لے۔مجھ پر وحشت اتنی زیادہ طاری ہو چکی تھی کہ اپنی تمام تر طاقت لگانے کے باوجود میرے لبوں پر جنبش تک نہ ہوئی۔ اب میں ساری امیدیں چھوڑ کر اپنی موت کو اپنی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا کہ اِسی دوران بہت زور سے دروازہ کھلا جس کے ساتھ ہی سارا منظر بالکل پہلے کی طرح نارمل ہو گیا ، اب وہاں پر کوئی بھی موجود نہیں تھا، میرا سر ایسے بھاری بھاری محسوس ہو رہا تھا جیسے منوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہو۔ میرے والدین کمرے سے بیسن کی طرف آ رہے تھے لیکن اس سے پہلے میں نیچے فرش پر گر چکا تھا۔
میرا سر کسی نے اپنی گود میں رکھا ہوا تھا ، یہ شاید امی تھیں۔ دونوں مجھ سے کچھ بول رہے تھے لیکن مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوسوں دور سے کوئی مجھے آوازیں دے رہا ہو ۔اب میری آنکھوں کے سامنے مکمل اندھیرا چھا چکا تھا اور میں بےہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو دانش کو سرہانے موجود پایا۔
سر آپ کی طبیعت بالکل ٹھیک ہے، ڈاکٹرز کے مطابق مسلسل ذہنی دباؤ اور نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے آپ hallucination کا شکار ہو گئے ہیں جس وجہ سے آپ کو اپنے آس پاس ایسی مخلوق دکھائی دیتی ہے جو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ دانش نے مجھے تفصیل سے بتایا۔
دانش تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو، میری اس عادت کا تم سے بہتر کس کو پتہ ہے کہ میں ایسی کسی مخلوق پر یقین تک نہیں رکھتا تھا، اپنے پورے بچپن سے میں اس پراسرار مخلوق کو دیکھنے کے لیے کئی کئی گھنٹوں تک گھر کے پاس والی ویران حویلی میں بیٹھا رہتا تھا اور تم مجھے کہہ رہے ہو کہ مجھے فریب نظر ہے۔
مجھے ڈاکٹرز کی بات پہ بہت زیادہ غصہ آیا کہ کل رات میں موت کے منہ سے واپس آیا ہوں اور انہیں یہ سب کچھ فریب نظر لگ رہا ہے۔
سر ایک اور بات بھی آپکو بتانی تھی، دانش نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ ضرور کوئی اور حادثہ ہوا ہوگا میں نے دل میں سوچا۔
اوپر سے آرڈرز موصول ہوئے ہیں کہ اب اس کیس کی تحقیقات کیلئے کوئی بہت بڑے جنات کے ماہر آفیسر کو بھیجا جا رہا ہے جنہوں نے باقاعدہ جنات کے اوپر باہر کے ملک سے PhD کی ہے اور انہوں نے ایسے بیسیوں کیسز کو حل کیا ہے، وہ آج شام تک پہنچ کر اس کیس کا چارج سنبھال لیں گے اور۔۔۔۔۔۔
دانش اور کہہ کر خاموش ہو گیا۔۔۔۔۔ اور کیا میں نے دانش سے پوچھا
اور سر آپ کو بھی ان کے انڈر ہی کام کرنا پڑے گا، دانش نے جھجھکتے ہوئے مجھے بتایا۔
یہ میرے لئے ایک بہت بڑی ناکامی تھی کہ اپنے پورے پانچ سالہ ریکارڈ میں پہلی دفعہ ایک کیس نہ صرف مجھ سے حل نہیں ہوا بلکہ مجھے اس کیس سے ہٹا کر کسی اور کو دیا گیا اور اب مجھے مجبوراً اس کے ماتحت کام کرنا پڑے گا۔
دوسرے دن صبح کے وقت دانش کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کے صاحب تشریف لائے جنہوں نے تھری پیس سوٹ پہنا ہوا تھا، سیاہ رنگ کا چشمہ لگایا ہوا تھا اور ایک عجیب بات مجھے نظر آئی کہ انہوں نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں مخلتف رنگ کے نگینوں کی تین تین انگوٹھیاں پہنیں ہوئی تھیں۔
سر یہ ہمارے کیس کے نئے انچارج ڈاکٹر صبغت علی خان ہیں، جب انہیں آپکی طبعیت کی ناسازی کا پتہ چلا تو آپ سے ملنے خود ہسپتال تشریف لے آئے، دانش نے انکا تعارف کراتے ہوئے بتایا۔
اور سر یہ ہیں ہمارے۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے انہیں کون نہیں جانتا، صبغت صاحب نے دانش کی بات کاٹ کر مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، اس کیس کی سٹڈی کرنے سے پہلے میں نے آپکے ریکارڈ کو سٹڈی کیا ہے اور میں یہ کہنے میں ہرگز غلط نہیں ہوں کہ جتنی کم عمری میں آپ نے ترقی کی ہے ایک دن بہت بڑا مقام آپکا منتظر ہے۔
بہت بہت شکریہ سر مجھے آپ کے ساتھ کام کرنے میں بہت خوشی ہوگی میں نے جواب دیا۔
اس کے بعد صبغت صاحب نے مجھ سے کیس کے حوالے سے تقریباً چار گھنٹے تک گفتگو کی جس میں میں نے انہیں ہر بات تفصیل سے بتائی بشمول اپنے ساتھ ہونے والے عجیب واقعات کے بھی۔
یہ ہیلوسینیشن نہیں ہے بلکہ حقیقت میں وہ سائے جیسی مخلوق آپ کو نظر آتی ہے اور جس طرح اس مخلوق نے باقی لوگوں کو بہت بےدردی سے قتل کیا وہ آپکو نقصان نہیں پہنچانا چاہتی ہے۔ مجھے ڈاکٹر صبغت کی بات پر عجیب حیرت ہوئی کہ وہ مجھے نقصان کیوں نہیں پہنچانا چاہتی حالانکہ میں تو اس کیس میں اس کے خلاف کاروائی کر رہا ہوں۔
میں نے آپ کے ڈاکٹر سے بات کی ہے آپ کی طبعیت اب بالکل ٹھیک ہے تو ہم کل رات آپ کے گھر میں آپ ہی کے کمرے میں اس مخلوق کو دوبارہ بلائیں گے اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیں گے کیونکہ ایک دفعہ یہ مخلوق جہاں پر آتی ہے تو اسے دوبارہ وہاں بلانا زیادہ مشکل نہیں اور اس وقت جو سب سے اہم بات ہمارے لئے ہے وہ یہ ہے کہ آپ اسے دیکھ بھی سکتے ہیں، ڈاکٹر صبغت علی خان نے اپنا پورا منصوبہ بتایا اور چلے گئے۔
ان کے جاتے ہی یہ سارا کچھ سوچ کر میرے اندر خوف پیدا ہونا شروع ہو گیا، میرے ذہن میں عجیب و غریب قسم کے خیالات آنا شروع ہو گئے کیونکہ ڈاکٹر صبغت کی اتنی زیادہ خوداعتمادی مجھے کسی بہت ہی خطرناک انجام کا پیش خیمہ لگ رہی تھی۔
دوسرے دن میں اور ڈاکٹر صبغت علی خان ان کے چار لوگوں کی ٹیم کے ہمراہ میرے گاؤں والے گھر پہنچ گئے جہاں سب سے پہلے میں نے اپنے تمام گھر والوں کو بہت مشکل سے منا کر اپنے شہر میں اپنے فلیٹ کی طرف روانہ کیا۔ ان کے جاتے ہی گھر کا مین گیٹ اندر سے بند کر دیا گیا۔ وہ کونسا کمرہ ہے جہاں پر آپ نے اس سائے کو دیکھا تھا ڈاکٹر صبغت نے مجھ سے پوچھا۔
میں نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے اوپر اپنے کمرے کی طرف اشارہ کیا اور ڈاکٹر صبغت اپنی پوری ٹیم کے ہمراہ تمام ساز وسامان سے لیس ہوکر اوپر چلے گئے۔
میں نے اپنے گھر کے چاروں اطراف نظر دوڑائی اور اوپر اپنے کمرے کی جانب جانے کے لئے سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ زندگی میں پہلی دفعہ مجھے اپنے ہی گھر میں اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے وحشت محسوس ہو رہی تھی اور میری ٹانگیں بار بار لڑکھڑا رہی تھیں جیسے وہ کوئی چتاؤنی دے رہی ہوں کہ اب بھی وقت ہے واپس چلے جاؤ۔ سیڑھیوں سے میرے کمرے تک زیادہ سے زیادہ ایک منٹ کا وقت لگتا ہے اور مجھے اس حالت میں کمرے تک پہنچنے میں پورے دس منٹ لگے۔
میں کمرے میں داخل ہوا تو پورے کمرے میں چاروں اطراف مخلتف قسم کی مشینری، کیمرے، کمپیوٹرز اور ناجانے کیا کیا کچھ سیٹ ہو چکا تھا اور ڈاکٹر صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ ڈرنکس پی رہے تھے۔ ہم ہمشیہ ایسی کاروائی سے پہلے ہی اپنی جیت کو سیلیبریٹ کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب نے مجھے دیکھتے ہی خوش ہوکر بتایا۔ آئیں آپ بھی پئیں، سوری سر میں شراب نہیں پیتا، تو کیا پیتے ہیں ڈاکٹر صبغت نے پوچھا۔ یہ۔۔۔۔ میں نے جیب سے سگریٹ نکالی اور پینا شروع کر دیا۔
ڈاکٹر صبغت بار بار تمام آلات چیک کرتے رہے اور اپنی ٹیم کو ہر آدھے گھنٹے بعد مختلف احکامات دیتے رہے اور میں ایک سائیڈ پر بیٹھ کر یہ سب کچھ دیکھ کر مزید خوفزدہ ہوئے جا رہا تھا۔
آج وقت بہت زیادہ تیزی سے گزرا تھا ، اب آدھی رات کا وقت ہو چکا تھا، پورے کمرے میں ہر طرف کیمرے سیٹ ہو چکے تھے، ڈاکٹر صبغت کی ٹیم کے چاروں لوگوں نے ایک عجیب قسم کا لباس پہنا ہوا تھا، کمرے میں بجلی والی روشنیاں بند کر کے عجیب مدھم قسم کی روشنیاں جلا دی گئی تھیں، سب کے پاس ایک آلہ تھا جس سے کسی بھی غیر معمولی مخلوق کی موجودگی کا پتہ لگایا جا سکتا تھا اور ان تمام جدید ترین آلات کے باوجود مجھے ڈاکٹر صبغت کے اس لاجک کی سمجھ نہیں آئی کہ انہوں نے پورے کمرے میں اگربتیاں بھی جلائی ہوئی تھیں۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ یہ بہت راز کی بات ہے لیکن اس آپریشن کی کامیابی کے بعد آپکو نہ صرف ان اگربتیوں کے بارے میں بتاؤں گا بلکہ اپنی ان انگوٹھیوں کے حوالے سے بھی بتاؤں گا۔
ڈاکٹر صبغت نے آخری دفعہ اپنے ٹیم کے لوگوں کو کچھ سمجھایا اور ایک آلہ لا کر مجھے دیا۔ یہ وہ آلہ ہے جو سائنسدانوں نے کروڑوں روپے کی لاگت سے پورے بیس سال کی لگاتار محنت اور ریسرچ کے بعد تیار کیا ہے، جب ہم آپریشن شروع کریں گے تو آپکو صرف دس سیکنڈ کے لئے وہ سایہ اپنی اصلی حالت میں دکھائی دے گا اور ان دس سیکنڈز تک وہ روح وہ سایہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ آپ نے اسے دیکھتے ہی اس آلے کے ذریعے اس پر ان شعاؤں کا حملہ کرنا ہے جس سے اس روح کی طاقت مکمل طور پر ختم ہو جائے گی اور وہ اپنی اصلی حالت میں ہمارے سامنے ہمارے ہی رحم و کرم پر ہوگی۔ ناجانے کیوں مجھے یہ سب کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا میرا ذہن عجیب الجھنوں کا شکار تھا کہ اسی دوران ڈاکٹر صبغت نے اونچی آواز میں عربی میں کچھ پڑھنا شروع کر دیا اور باقی چاروں لوگ بھی کمپیوٹر اور اپنے آلوں کے ساتھ مختلف کام کرنا شروع ہو گئے۔
پانچ منٹ بعد ڈاکٹر صاحب خاموش ہوئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولے کہ ابھی دو منٹ کے اندر مجھے وہ روح اپنی اصلی حالت میں دکھے گی جسے دیکھتے ہی میں نے ان کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرنا ہے۔
میرے خوف میں مزید اضافہ ہو گیا اور میں مکمل پسینے میں شرابور ہو گیا۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کہ کمرے میں روشنیاں جلنا بُجھنا شروع ہو گئیں، اوپر لگا پنکھا زور زور سے ہلنا شروع ہو گیا، کھڑکیاں زور زور سے کھلنا بند ہونا شروع ہو گئیں، میرے کپڑوں کی الماری دھڑام سے نیچے آگری۔ یہ سارا منظر مجھے ایک فلمی سین لگ رہا تھا لیکن یہ حقیقت تھا۔ دو منٹ کے بعد پورے کمرے میں دھواں پھیل گیا اور یکدم میرے سامنے اسی دھوئیں سے نکل کر ایک بہت ہی حسین لڑکی نمودار ہوئی، لمبے لمبے بال، چہرے پر بے انتہاء معصومیت، پہلی مرتبہ کسی غیر معمولی مخلوق کو اتنا خوبصورت اور اتنا بےبس دیکھا، کیا جنات واقعی اتنے خوبصورت ہوتے ہیں، اگر واقعی اتنے خوبصورت ہوتے ہیں تو ان کے اندر اتنی بے رحمی اور سفاکی کیوں ہوتی ہے۔
وقت جو تھوڑی دیر پہلے بہت تیزی سے گزر رہا تھا اب ایسا لگ رہا تھا جیسے تھم سا گیا ہو۔ پیچھے کہیں بہت دور سے مجھے ڈاکٹر صبغت کی چلاتی ہوئی آواز بھی ہلکی ہلکی سنائی دے رہی تھی کہ اچانک پورے کمرے میں دوبارہ روشنی ہو گئی، کہیں پہ دھوئیں کا نام و نشان تک نہیں تھا اور نہ وہ خوبصورت لڑکی کہیں موجود تھی۔
تمہارا دماغ خراب ہو گیا تھا، جب وہ روح آ گئی تھی تو تم نے حملہ کیوں نہیں کیا، ڈاکٹر صبغت چلاتے ہوئے میری طرف بڑھ رہے تھے کہ یکدم بجلی کی سی تیزی کے ساتھ جاکر دیوار پر لگے اور نیچے گر پڑے، اب اوپر چھت پہ لگا پنکھا خودبخود اتنی تیزی کے ساتھ چلنا شروع ہو گیا کہ نیچے پڑے میرے کپڑے ہوا میں اڑنا شروع ہو گئے اور اسی دوران ڈاکٹر صبغت اڑتے ہوئے جاکر پنکھے سے ٹکرائے اور دوبارہ یکدم اندھیرا چھا گیا، خاموشی اتنی زیادہ تھی کہ مجھے تیزی کے ساتھ چلتی اپنی دھڑکنیں تک سنائی دی رہی تھیں کہ اچانک دوبارہ روشنی ہوئی اور نیچے ایک کونے پر ڈاکٹر صبغت کا سر اور دوسرے کونے پر دھڑ پڑا تھا اور پورا کمرہ خون سے ایسے بھرا ہوا تھا جیسے جانوروں کا ذبح خانہ ہو۔ یہ منظر دیکھ کر ہم سب نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ اسی دوران میرے ہاتھ سے گرا وہ آلہ ہوا میں معلق ہوا اور ڈاکٹر صبغت کی ٹیم کے باقی چاروں لوگوں پر خودبخود چل پڑا۔ وہ آلہ اتنا زیادہ طاقتور تھا کہ جہاں تھوڑی دیر پہلے چار جیتے جاگتے لوگ کھڑے تھے اب وہاں فقط چند ہڈیاں پڑیں تھیں جن سے دھواں اڑ رہا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے اگلی باری اپنی دکھائی دینا شروع ہو گئی کہ ایک دفعہ پھر کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔ میرے سر پر کچھ لگا اور میں بیہوش ہو گیا۔
ایک ہفتے بعد مجھے ہوش آیا تو معمول کے مطابق میں نے خود کو ہسپتال میں ہی پایا، میرے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی، آنکھوں کے سامنے سے دھندلاہٹ ختم ہوئی تو سامنے امی بیٹھی رو رہی تھیں اور مجھے ہوش میں دیکھ کر روتے ہوئے میرے چہرے اور ماتھے کے بوسے لینا شروع ہو گئیں۔
شام کے وقت دانش گلاب کے پھولوں کے ہمراہ آیا اور زندہ بچ جانے کے مبارکباد کے بعد کان میں آکر کہا " سر شکر ہے ڈاکٹر صبغت مجھے بھی اس آپریشن میں ساتھ نہیں لے کر گئے ورنہ آج آپ مجھ سے یہ گلاب کے پھول لے نہیں رہے ہوتے بلکہ مجھے دے رہے ہوتے لیکن میری قبر پر"۔
اب دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، اس دن کے بعد دوبارہ کبھی بھی شہر میں کوئی ویسا غیر معمولی قتل کا واقعہ نہیں ہوا، میری ترقی ہو گئی اور دانش کی شادی۔ باقی سب کچھ ٹھیک تھا لیکن صرف ایک مسئلہ تھا، امی کو میرے ساتھ اکثر سائے کی طرح دکھنے والی کوئی چیز نظر آتی ہے اور میں انہیں ہمیشہ کہتا ہوں کہ امی یہ آپکا وہم ہے۔
(ختم شد)