پتہ نہیں کب مجھے اُس ویرانے بھوت بنگلے میں نیند آ گئی اور میری آنکھ اُس وقت کُھلی جب کسی نے مجھے آکر جگایا۔
بھائی چائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ میری چھوٹی بہن میشال تھی، میشال سے چائے کا کپ لے کر جیسے ہی میں نے پہلا سِپ پیا تو اچانک میرے ذہن میں ماضی کا وہ دس سال پرانہ حادثہ آ گیا جس میں میشال چل بسی تھی۔
اگر یہ میشال نہیں ہے تو پھر کون ہے، میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ چائے کے کپ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے اوپر دیکھا تو مجھے اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی، کیونکہ اب وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے نیچے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو میرے دونوں ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے لیکن اب اُن میں چائے کا کپ نہیں تھا۔
میں وہاں سے ہڑبڑا کر گھر کی طرف بھاگنے ہی لگا تھا کہ اچانک میری نظر اُس جگہ پر پڑی جہاں مجھے نیند آ گئی تھی، مجھے ایسا لگا جیسے وہاں پر کوئی ہے۔ میں لڑکھڑاتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ اس کے قریب گیا اور لیٹر جلائی تو سامنے کا منظر دیکھ کر خوف کے مارے میری چیخ تک نہ نکل سکی اور وہاں سے بھاگنے کی ہڑبڑاہٹ میں لیٹر وہیں پہ گرا کر ہانپتے ہوئے گھر کی طرف بھاگا۔ جیسے ہی میں نے لیٹر جلائی تھی تو وہاں پر میں نے ہوبہو اپنے ہی جیسا ایک بندہ دیکھا جو سو رہا تھا اور لیٹر کے جلتے ہی وہ میرے سامنے اٹھ بیٹھا۔
پسینے سے شرابور جب میں گھر پہنچا تو میں نے امی کو اپنا منتظر پایا۔ امی ضرور میری اتنے گھٹنوں سے غیر موجودگی کی وجہ سے پریشانی کے عالم میں مسلسل میرا انتطار کر رہی ہوں گی، میں نے دل میں سوچا۔
ارے بیٹا آج اتنی جلدی واک سے واپس آ گئے، مجھ لگا امی نے طنزاً ایسا کہا۔
ج۔۔۔۔ج۔۔۔۔جلدی۔۔۔۔۔۔۔
میں نے گھڑی پر وقت دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ مجھے گھر سے نکلے ابھی صرف آدھا گھنٹہ ہوا تھا۔
یا اپنی یہ بھولی ہوئی چیز واپس لینے آئے ہو، دوبارہ امی کی آواز آئی اور ان کے ہاتھ میں میرا وہی لائٹر تھا جسے تھوڑی دیر پہلے میں اُس بنگلے پر گرا کر آیا تھا۔ اب میری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے، میرے ذہن میں ہلکا سا گمان آیا کہ کیا یہ واقعی میری امی بھی ہیں یا کوئی اور مخلوق جو میری ماں کی شکل میں میرے سامنے موجود ہے۔ امی مسلسل بولے جا رہی تھیں اور میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا بول رہی ہیں، مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میرے چاروں اطراف کی زمین بہت تیزی کے ساتھ گھومنا شروع ہو گئی ہے، میں ہکابکا خود کو آسمان کے چاروں اطراف گھومتا ہوا محسوس کر رہا تھا کہ امی نے مجھے بہت زور سے جھنجھوڑا اور اُسی دوران سب کچھ نارمل ہو گیا۔
تمہارا فون۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہونہہ۔۔۔۔۔۔ک۔۔۔۔ک۔۔۔۔۔ کیا۔۔۔۔۔ میں نے امی سے پوچھا۔
تمہارا فون بج رہا ہے امی کے لہجے میں اب غصہ تھا۔ میں نے جلدی جلدی جیب میں سے موبائل نکالا تو دانش کی کال آ رہی تھی۔ میں نے خود کو نارمل کرتے ہوئے فون اٹینڈ کیا۔
ہاں بولو دانش۔۔۔۔۔ سر ٹی وی دیکھی ہے، دانش نے مجھ سے پوچھا۔
نہیں۔۔۔ کیا ہوا
سر ایک اور حادثہ ہو گیا ہے اور اب کی بار نہ اسکی کوئی CCTV فوٹیج ہے اور نہ کوئی ثبوت کہ یہ قتل ہے، کیونکہ یہ مکمل طور پر خودکشی ہے لیکن حقیقت میں یہ موت بالکل نارمل نہیں ہے کیونکہ ایک عام انسان کے لیے ایسے خودکشی کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور اس حادثے کی تمام تفصیلات میں نے آپکو mail کر دی ہیں، ساتھ میں اس جگہ کی اور لاش کی ویڈیو بھی بنا کر بھیج دی ہے۔
ٹھیک ہے میں کل پہنچتا ہوں، میں نے دانش کی بات تفصیل سے سننے کے بعد فون کاٹ دیا۔
امی مجھے کل واپس جانا پڑے گا ایک اور حادثہ ہو گیا ہے، میں نے امی کو بتایا۔ بیٹا تم یہ نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے ، ہر وقت خون خرابہ لاشیں، مجھے تمہاری بڑی فکر رہتی ہے۔ امی نے میرے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔
امی آپ میرے حوالے سے پریشان نہ ہوں میں بالکل ٹھیک ہوں اور اپنا ڈھیر سارا خیال بھی رکھتا ہوں اور آپ جانتی تو ہیں کہ یہ عہدہ حاصل کرنے کے لیے میں نے کتنی محنت کی ہے۔ میں نے امی کو تسلی دیتے ہوئے کہا اور اپنے کمرے میں آ گیا۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے جو کچھ بھی ہوا کیا وہ حقیقت ہے یا محض میرا وہم ہے، اگر وہم ہے تو مجھے اتنا ڈر کیوں لگ رہا تھا اور اگر حقیقت ہے تو میں کیوں ان سب چیزوں سے دور بھاگ رہا ہوں، یہی تو وہ ساری باتیں ہیں جنہیں میں بچپن سے جاننا چاہتا تھا، اسی پراسرار مخلوق کو محسوس کرنا چاہتا تھا، اب اگر میرے سامنے آ رہے ہیں تو میں کیوں ان سے دور بھاگ رہا ہوں۔ ایک دفعہ پھر میرا ذہن آج اپنے ساتھ پیش آنے والے عجیب و غریب مسئلوں کی طرف چل نکلا اور بہت دیر بعد مجھے یاد آیا کہ مجھے آج ہونے والے حادثے کی mail چیک کرنی ہے۔ میں نے لیپ ٹاپ نکالا اور ای میل چیک کیا۔
یہ ایک لڑکی کی تصویر تھی جو دیکھنے میں بہت خوبصورت تھی، عمر چوبیس سال، ایم فل کی طالبہ، ساتھ میں جاب بھی کر رہی تھی اور کسی فلیٹ میں اکیلے رہتی تھی۔ ان تمام تفاصیل کو پڑھنے کے بعد میں نے وہ ویڈیو چلائی۔
اُسی خوبصورت لڑکی کی پنکھے سے لٹکتی ہوئی لاش، گردن میں بہت بے دردی کے ساتھ چھری دھنسی ہوئی، دونوں ہاتھوں کے رگ کٹے ہوئے، ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئیں اور حیرانگی کی بات یہ تھی کہ خون کا ایک خطرہ تک پورے گھر میں کہیں موجود نہیں تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس بلڈنگ کی CCTV فوٹیج کے مطابق کوئی بھی رات کے اُس پہر جب اس لڑکی کی موت واقع ہوئی نہ بلڈنگ کے اندر آیا اور نہ اس دوران باہر گیا۔ ہمسایوں کے مطابق لڑکی کے فلیٹ سے کچھ دنوں سے عجیب و غریب قسم کی حرکتیں ہو رہی تھیں، کبھی رات کو برتنوں کے گرنے کی آواز آتی کبھی لڑکی کے زور زور سے ہنسنے کی آواز آتی ، کبھی زور زور سے رونے کی آواز آتی۔ گھنٹوں تک لڑکی کے بولنے کی آواز آتی رہتی اور جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے بالکل نارمل لوگوں کی طرح جواب دیتے ہوئے سب ٹھیک ہے کا یقین دلایا لیکن کل رات اس کے فلیٹ سے بہت زیادہ چیخنے چلانے کی آوازیں آئیں جس پر پولیس کو اطلاع دی گئی اور جب پولیس پہنچی تو اس سے پہلے ہی وہ خودکشی کر چکی تھی۔
ان تمام تفاصیل کا مطالعہ کرتے ہوئے پتہ تک نہیں چلا اور رات کے دو بج گئے، مجھے بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی، تھوڑا فریش ہونے کے لئے منہ دھونے میں بیسن کی طرف گیا۔ اچھے سے منہ دھو کر بیسن کے سامنے لگے شیشے میں دیکھا تو مجھے اپنے چہرے پر تھوڑا سا خون دکھائی دیا میں نے دوبارہ اچھے سے منہ دھویا اور واپس شیشے میں دیکھا تو ایک شدید جھٹکے کے ساتھ جا کر دروازے پر لگا ۔ شیشے میں وہی سائے کی طرح مدھم دکھنے والی پراسرار مخلوق کھڑی تھی۔