"۔۔۔ ترکیب عمدہ تھی اس لئے ہم نے اس پر فوراً عمل کیا اور نتیجہ کے طور پر ہم نے مکھی کا سر اپنی طرف کھینچ لیا۔ جب سر ہمارے قریب آ گیا تو ہم نے اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھا۔ آنکھیں کیا تھیں۔ دو بہت بڑے بڑے گول نگینے سے تھے اور ان نگینوں میں ہزاروں رنگ نظر آتے تھے، کسی طرف سے بھی دیکھنے کے بعد یہ رنگ پلٹنے لگتے تھے۔ بڑی دیر تک ہم ان شیشوں کو حیرت سے دیکھتے رہے اور پھر ملاح نے ایک تیز خنجر سے وہ قیمتی آنکھیں سر میں سے نکال لیں۔ ان آنکھوں کو حفاظت سے اپنے ساتھ لے کر ہم جلدی جلدی آگے بڑھے۔
ملاح پانی کے اس ذخیرے کے قریب رک گیا جو پہلے ہمیں گرم لگا تھا مگر پینے کے لائق تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ کیوں رک گیا ہے؟
تو اس نے کہا کہ جتنی جلدی ہو سکے ہم جہاز میں سے پانی کے ڈرمز لے کر آئیں تاکہ پینے کا پانی یہاں سے جمع کر سکیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے فیروز، کہ جس ملاح پر ہم پہلے حکم چلایا کرتے تھے، اب وہی خود ہم پر حکم چلا رہا تھا اور ہم بغیر چوں چرا کئے اس کی ہر بات مان رہے تھے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہمارا محسن تھا اور اس نے کچھ دیر پہلے ہماری جانیں بچائی تھیں۔
خیر ہم جلدی جلدی پہاڑ پر چڑھے، جہاز میں سے دو ڈرم نکالے میں نے جھانک کر تمہیں دیکھا، تم اس وقت تک بےہوش پڑے ہوئے تھے۔ یہ سمجھ کر کہ تم جلد ہوش میں نہ آؤ گے، ہم ڈرمز لے کر پہاڑ سے نیچے آئے، ملاح نے ڈرمز میں پانی بھرا اور پھر ایک ڈرم اپنے کندھے پر رکھ کر وہ پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ قصہ مختصر یہ کہ اس طرح ہم نے زیادہ سے زیادہ ڈرام پانی سے بھر لئے۔ جس وقت ملاح آخری ڈرم لے کر پہاڑ پر چڑھ رہا تھا، یکایک زمین زور سے ہلی اور نہ جانے کیا بات ہوئی کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے اچانک جزیرہ ڈانواں ڈول ہونے لگا۔ پہاڑ پر چڑھتے چڑھتے ہم نے غور سے جزیرے کی زمین کو دیکھا تو بہت اچنبھا ہوا۔ بپھرتے ہوئے سمندر کا پانی آہستہ آہستہ زمین کی طرف بڑھ رہا تھا۔ مطلب یہ کہ جزیرہ ڈوب رہا تھا!"
"وقت سے پہلے ہی ڈوب رہا تھا۔؟" میں نے حیرت سے دریافت کیا۔
"ہاں فیروز! وقت سے پہلے ہی، اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ سب اس خوف ناک مکھی کے اچانک مر جانے سے ہوا تھا۔" جان نے تمباکو کے لمبے کش لگانے کے بعد کہا۔
"جب جزیرہ سمندر میں ڈوبنے لگا تو اس کے ساتھ ہی ہمارا جہاز بھی آہستہ آہستہ نیچے آنے لگا۔ جہاز ابھی تک پہاڑ کی چوٹی پر ٹکا ہوا تھا۔ جب یہ پہاڑ بھی سمندر میں ڈوب گیا تو ہمارا جہاز بھی آپ ہی آپ پانی کی سطح سے لگ گیا۔ ہم تینوں نے مل کر جلدی جلدی بادبان کھولے اور لمبے لمبے بانسوں کی مدد سے جہاز کو پہاڑ کی چوٹی سے دور ہٹا دیا۔ ہم چوٹی سے بانس لگا کر زور لگاتے اور جہاز اپنی جگہ سے تھوڑا کھسک جاتا اور آخرکار اس طریقے سے جہاز چوٹی سے ہٹ کر پورا کا پورا پانی میں آ گیا۔۔۔ کوشش ہم نے یہی کی کہ جلد سے جلد اس موت کے جزیرے سے دور چلے جائیں اور اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔ راستے میں ہم نے تمہاری مرہم پٹی کی اور اگلے دن سورج کی پہلی کرن کو مکھی کی آنکھوں سے گزار کر یہ سونا اور ہیرے بنائے۔ لو یہ دیکھو۔"
اتنا کہہ کر جان نے مجھے چند ہیرے اور سونے کا ایک ٹکڑا دکھایا۔ اس نے بتایا کہ ہیرے تو چند چھوٹے پتھروں سے بنے ہیں اور سونا ایک ٹوٹے ہوئے چاقو کے پھل سے۔ یہ چیزیں دیکھ کر میری حیرت کی کچھ حد نہ رہی۔ اب تک تو میں یہی سمجھتا رہا تھا کہ مکھی کی آنکھوں والی کہانی میں کچھ سچائی نہیں ہے۔ ولیم نے کتاب میں جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل جھوٹ ہے، مگر حقیقت میرے سامنے تھی اور اب میں اسے کسی بھی طرح نہیں جھٹلا سکتا تھا !
آپ کو یہ بتانا تو اب بالکل بےکار سا لگتا ہے کہ ہم لوگ کس طرح ہندوستان کے ساحل کومورن تک پہنچے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ہزاروں مشکلیں جھیلتے، طوفانوں سے لڑتے، نت نئی بلاؤں کا مقابلہ کرتے آخرکار دس ماہ بعد کومورن پر اترے۔ تب ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ کپڑے اتنے پھٹے ہوئے تھے کہ ہم اس حالت میں بستی کے اندر نہیں جا سکتے تھے۔ مجبوراً ملاح کو بھیجا۔ وہ ہمارے لئے سونے کی ایک چھوٹی سی ڈلی کے بدلے ایسا لباس لے آیا ہے جسے پہن کر ہم انسان نظر آنے لگے (یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ سونے کی ڈلی دراصل مکھی کی آنکھوں ہی کا کرشمہ تھی)۔
چند دن اسی بستی میں آرام کرنے کے بعد ہم نے اپنے گھوڑے لئے اور ساتھ ہی بستی سے چند بڑے بڑے مضبوط تھیلے بھی خرید لئے، اس کے بعد ہم اس مقام کی طرف روانہ ہوئے جہاں اب سے کافی دن پہلے خزانہ دریافت کیا تھا۔ چوں کہ اب ہم تازہ دم تھے اس لئے جلد ہی اس خوف ناک جنگل میں داخل ہو گئے۔ جہاں دوبارہ داخل ہونے کی تمنا ہم میں سے کسی کو نہ تھی۔ کیونکہ اس جنگل میں ہمارے ساتھ بڑے عجیب حادثے پیش آ چکے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو یہ لکھتے ہوئے میرا دل اب بھی کانپ رہا ہے کہ خزانے کے زمین دوز دروازے کے اوپر ہی ایک انسانی ڈھانچہ مونہہ کھولے، بڑی بے بسی کی حالت میں پڑا ہوا ملا اور وہ ڈھانچہ عبدل کے سوائے اور کسی کا نہیں تھا۔۔۔!
وہ انسان جو کبھی بڑھ چڑھ کر باتیں بناتا تھا اب مٹھی بھر خاک اور سوکھی ہوئی ہڈیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ کیسی عبرت کا مقام تھا! جیک اور ملاح نے مل کر وہ زمین پھر کھودی، راستہ دوبارہ صاف کیا اور ہم نے وہ خزانہ ایک بار پھر حاصل کر لیا۔ ہمارے دل خوشی سے پر تھے۔ بوریاں تو موجود تھیں ہی اس لئے خزانہ بوریوں میں بھرنے کے بعد ہم واپس کومورن پہنچ گئے۔ یہاں ہم نے اپنے گھوڑے بیچ دیئے اور دو ملاح اور حاصل کئے۔ ہمارے ساتھ جو ملاح تھا اس نے ہم سے درخواست کی تھی کہ اب وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہے چوں کہ اس نے ہماری مدد بھی بہت کی تھی اس لئے ہم نے اس کی یہ التجا قبول کر لی۔
کومورن سے روانہ ہونے پر جان کو ایک عجیب و غریب بیماری لاحق ہو گئی۔ شاید سمندر میں زیادہ عرصے تک رہنے کی وجہ تھی یا پھر اس کا بڑھاپا۔ اس بیماری کے باعث وہ کافی کمزور ہو گیا تھا۔ کیوں کہ خشکی کا راستہ بہت مشکل اور تکلیف دہ تھا اس لئے ہم نے جان بوجھ کر سمندری راستہ اختیار کیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کہ آئندہ ہمیں کیا کرنا ہو گا، ہم بمبئی پہنچ کر ہی سوچیں گے۔ اور پھر وہیں اس کا فیصلہ کریں گے اور سوچیں گے کہ خزانے کا کیا کیا جائے؟
مختصر یہ کہ بمبئی پہنچنے کے بعد ہم ایک ہوٹل میں مقیم ہو گئے۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ میں پہلے دلی کے ایک ہوٹل میں بیرا تھا مگر اب بمبئی کے ایک عالیشان ہوٹل میں کسی بگڑے ہوئے رئیس کی طرح بڑے کروفر سے رہ رہا تھا۔ یہاں آ کر ہم نے خزانے کے کئی حصے کئے۔ حکومت کو اس کا حصہ دینے کے بعد بھی ہمارے پاس اتنا بچا تھا کہ ہماری ہزار پشتیں بھی اپنی زندگیاں آرام سے گزار سکتیں تھیں۔ جان اور جیک نے فیصلہ کیا کہ چند ہفتے وہ اسی ہوٹل میں مقیم رہیں گے، پھر اس کے بعد امریکا جانے کا پروگرام بنائیں گے۔ ہم اب غریبوں اور محتاجوں کی بھی اتنی مدد کر رہے تھے کہ ہر طرف ہمارا شہرہ ہو گیا، بڑے بڑے لوگ ہم سے ملنے آنے لگے۔ میں خوب سمجھ رہا تھا کہ یہ لوگ ہم سے ملنے نہیں بلکہ ہماری بے شمار دولت سے ملنے آ رہے ہیں۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ میں اور جان ہوٹل کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارا بیرا آیا اور میرے سامنے ادب سے جھک کر کہنے لگا :
"جناب آپ سے ایک شخص ملنا چاہتا ہے۔ حکم دیں تو یہیں بلا لوں۔"
میں نے جواب طلب نظروں سے جان کو دیکھا اور ان نظروں کا مطلب سمجھ کر جان نے بیرے سے کہا۔
"نہیں۔ ہم فیروز کے کمرے میں چلتے ہیں، وہیں بلا لاؤ۔"
بیرا سر جھکا کر واپس چلا گیا اور پھر ہم دونوں بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئے، جیک شاید کہیں گیا ہوا تھا۔ اس لئے وہ ہماری ہونے والی گفتگو میں شامل نہ ہو سکا۔ ہم ابھی اپنے کمرے میں آ کر بیٹھے بھی نہیں تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ جان کے "کم ان" کہنے پر دروازہ کھلا اور بیرا ایک ادھیڑ عمر شخص کو اپنے ساتھ لئے ہوئے اندر داخل ہوا۔ بغیر کسی سلام و دعا کے وہ شخص بڑی تیزی سے میری طرف ہاتھ پھیلا کر بڑھا۔ اور پھر "میرے بچے" کہہ کر مجھ سے زبردستی لپٹ گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے خود کو چھڑایا اور پھر اس سے بولا:
"آپ کون ہیں اور کیوں مجھ سے بغل گیر ہو رہے ہیں؟"
"مجھے معلوم تھا میرے بچے کہ تم مجھے نہیں پہچانو گے۔ ارے میاں میں جمال ہو جمال۔ تمہارا چچا۔"
حیرت کا ایک شدید حملہ مجھ پر ہوا۔ خود جان کی بھی یہی حالت تھی۔ شاید وہ اس اجنبی کی گفتگو سمجھ گیا تھا۔ جیسا کہ میں آپ کو پہلے بتا آیا ہوں وہ دنیا کی تقریباً سب ہی زبانیں تھوڑی تھوڑی ضرور جانتا تھا۔
"چچا۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جناب، کیا واقعی آپ فیروز کے چچا ہیں؟" اس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں پوچھا۔
جان کی زبانی اتنا سنتے ہی وہ شخص زار و قطار رونے لگا۔ ہم اس کی شکل تکے جاتے تھے اور وہ روئے جاتا تھا، کافی دیر تک یہ ڈرامہ ہوتا رہا۔ آخر مجھے خود ہی اس کو خاموش کرنا پڑا۔ میں نے کہا:
"تعجب ہے کہ مجھے آج تک معلوم نہ سکا کہ میرا کوئی چچا بھی ہے؟ جس وقت میں روٹی کے دو ٹکڑوں کو محتاج تھا اور ایک ہوٹل میں بیراگری کر رہا تھا اس وقت آپ کہاں تھے؟"
"آہ فیروز، میرے بیٹے۔ میرے دل پر چرکے مت لگاؤ۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ تم پر کیا بیتی ہے؟ میں جاپان گیا ہوا تھا۔" اس شخص نے پھر مجھے گلے لگانے کی کوشش کی مگر میں پیچھے ہٹ گیا۔ اور اسے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے بولا۔
"چلئے مان لیتا ہوں کہ ایسا ہی ہے۔ مگر اب آپ میرے پاس کیا لینے آئے ہیں؟"
"کیا لینے آیا ہوں؟" اس نے حیرت سے کہا : "بیٹا تمہیں اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں!"
"جی شکریہ۔ تکلیف کی ضرورت نہیں، مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔ لہذا اب آپ تشریف لے جا سکتے ہیں!"
"مگر بیٹا۔ آخر تمہیں ۔۔۔"
وہ شخص اتنا ہی کہنے پایا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ جان نے فون اٹھایا اور پھر آپریٹر کی بات سن کر بولا: "انہیں بھی بھیج دیجئے۔"
"کون ہے؟" میں نے جان سے پوچھا۔
"دیکھتے جاؤ کیا ہوتا ہے۔ اس کا نام دنیا ہے۔ فیروز! تمہارے ایک دوسرے چچا آ رہے ہیں۔"
میں ابھی حیرت سے جان کو دیکھ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور ایک نوجوان آدمی، بہترین سوٹ پہنے اندر داخل ہوا۔ مجھے دور سے ہی انگریزی ملی اردو میں بولا۔
"ہیلو ڈیر فیروز۔ ہاؤ ڈو یو ڈو۔ تم کیسے ہو؟ میٹ می۔ آئی آیم یؤر انکل۔"
میں جان کو دیکھ کر مسکرایا اور پھر جان نے انگریزی میں ہی ان حضرت سے کہا۔
"آپ فیروز کے چچا ہیں۔۔۔؟"
"یقیناً۔ میں ہی فیروز کا چچا ہوں۔"
"مگر کون سے چچا ہیں؟ پہلے، دوسرے، تیسرے یا چوتھے۔؟"
"کیا مطلب؟" انہوں نے چونک کر پوچھا "جنٹلمین! ہم صرف دو بھائی ہیں۔ وہ مجھ سے بڑے تھے اور میں چھوٹا۔"
"خوب! تو پھر آپ انہیں بھی پہچانئے۔"
جان نے پہلے آنے والے میرے 'چچا' کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "یہ بھی فیروز کو اپنا بھتیجا کہتے ہیں!"
"واہ جناب، یہ اچھی رہی۔ یہ کوئی طریقہ ہے۔ فیروز میرا بھتیجا ہے، کمال ہے کہ اب دوسرے لوگ بھی اس کے چچا بن کر آنے لگے۔!"
اتنا کہہ کر وہ صاحب میرے پہلے "چچا" سے لڑنے لگے۔ ہم دونوں خاموش بیٹھے ان کی نوک جھونک دیکھتے رہے اور جب یہ لڑائی بڑھتی ہی گئی تو میں نے اکتا کر ان سے کہا:
"خاموش رہئے، صاحبان! لڑئیے مت اور براہ کرم فوراً یہاں سے تشریف لے جائیے، میں ایک یتیم لڑکا ہوں اور جہاں تک مجھے معلوم ہے میرا کوئی چچا نہیں ہے، اس لئے آپ دونوں یہاں سے فوراً نکل جائیے۔"
وہ دونوں حیرت سے میرا مونہہ تکنے لگے۔ انہوں نے کچھ کہنے کے لئے مونہہ کھولا ہی تھا کہ جان نے انہیں ڈانٹ دیا اور وہ لرزتے کانپتے باہر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد جان سوچ میں پڑ گیا۔ آخر کچھ دیر بعد بولا:
"یہ تو بڑی مصیبت ہوئی فیروز۔ اس طرح تو روزانہ کوئی نہ کوئی تمہارا چچا یا ماموں بن کر آنے لگے گا۔ آخر ایسے لوگوں سے ہم کس طرح نجات حاصل کریں گے۔ ویسے ایک بات ہے فیروز۔۔۔!"
"فرمائیے کون سی؟"
"تم نے تو آج تک مجھے بھی اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ تم کون ہو، اور تمہارے والدین کون تھے، ان کا پیشہ کیا تھا؟"
"والدہ کے بارے میں تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔" میں نے سوچتے ہوئے کہنا شروع کیا:
"میں بہت چھوٹا سا تھا جب کہ ان کا انتقال ہو گیا تھا۔۔۔ ہاں بس مجھے اتنا یاد ہے کہ تین یا چار سال کی عمر تک میں ایک بہت بڑے اور صاف ستھرے مکان میں رہتا تھا۔ ایک عورت تھی جو شاید میری آیا تھی۔ وہ مجھے بڑے لاڈ و پیار سے رکھتی تھی اور مجھے میرے والد کے قصے مزے لے لے کر سناتی تھی۔"
"والد کے قصے!" جان نے حیرت سے کہا "اس کا مطلب ہوا کہ تم نے اپنے والد کو نہیں دیکھا؟"
"جی ہاں یہی سمجھئے۔ صرف دو تین بار دیکھا تھا۔ پانچ چھ سال کی عمر میں ایسی باتیں یاد کسے رہتی ہیں۔ میری عمر اتنی ہی تھی۔ ہلکا سا نقشہ میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ وہ ایک لمبے تڑنگے آدمی تھے اور ان کی مونچھیں بھی تھیں۔ شاید وہی میرے والد ہوں گے۔"
"پھر وہ کہاں گئے۔۔۔؟" جان نے جلدی سے پوچھا۔
"پتہ نہیں کہاں گئے، میں کہہ نہیں سکتا۔"
"تو تم دلی کے ہوٹل میں کس طرح ملازم ہوئے؟"
"مجھے اتنا یاد ہے کہ اس بوڑھی عورت نے مجھے ایک گھر میں بھیج دیا تھا۔ جہاں بچے ہی بچے تھے۔ ان بچوں کے ماں باپ بھی نہیں تھے۔ اس وقت تو مجھے معلوم نہ تھا کہ اس گھر کو کیا کہتے تھے، ہاں مگر اب میں جانتا ہوں کہ وہ یتیم خانہ تھا اور اسی یتیم خانے سے بعد میں مجھے دلی کے اس ہوٹل میں بیرا بنا کر بھیج دیا گیا۔ بس یہی میری کہانی ہے۔"
اتنا کہہ کر میں افسردہ ہو گیا۔ دل میں عجیب عبجیب خیالات آنے لگے۔ ماں اور باپ جنہیں میں نے بہت ہی کم دیکھا تھا مجھے یاد آ گئے۔ دل سے ایک ہوک سی اٹھی اور آپ ہی آپ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ میں پھر اتنا بے تاب ہوا کہ مونہہ چھپا کر بری طرح رونے لگا۔ یہ دیکھ کر جان نے جلدی سے اٹھ کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ میرے آنسو پونچھے اور کہنے لگا۔
"گھبراؤ مت فیروز! میرے بیٹے، میں کل بمبئی کے سب یتیم خانوں میں جاؤں گا۔ اور خدا نے چاہا تو تمہارے والد کے بارے میں بہت کچھ پوچھ کر آؤں گا۔ تم اپنا دل چھوٹا مت کرو اور آرام کرو۔"
آرام تو اب مجھے کرنا ہی تھا۔ کیوں کہ اب میں اتنا دولت مند تھا کہ میری پوری زندگی عیش و آرام میں گزر سکتی تھی۔ مگر جسے سکون کہتے ہیں، وہ مجھے میسر نہیں تھا۔ لوگوں کے کہنے سے بار بار یہ بات دل میں کھٹکتی تھی کہ آخر میں کون ہوں؟
میرے ماں باپ کون تھے؟
میرے والد زندہ ہیں یا مر گئے؟
ہر وقت بس میں یہی بیٹھا ہوا سوچتا رہتا۔ بہت سے لوگ مجھ سے ملنے آئے، مگر میں نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ مجھے یقین تھا کہ ان میں سے بیشتر میرے چچا، ماموں، بھائی یا دور کے رشتے کے عزیز ہوں گے۔ کچھ چندہ مانگنے آئے ہوں گے اور کچھ مجھے اپنے کلب کا ممبر بنانے۔ زندگی اسی طرح گزر رہی تھی کہ ایک دن جان ایک بوڑھی عورت کو اپنے ساتھ لئے ہوئے میرے کمرے میں آیا۔ عورت لاٹھی ٹیک کر چل رہی تھی۔ اس کی کمر جھکی ہوئی تھی اور وہ بہت زیادہ عمر رسیدہ تھی۔
"فیروز! یتیم خانوں میں پوچھ گچھ کے بعد میں نے تہماری آیا کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ دیکھو یہی تمہاری وہ آیا ہیں جو تمہیں بچپن میں بہت پیار کرتی تھیں؟ آؤ ان سے ملو۔"
"فیروز بیٹا! تو کہاں ہے۔ میرے پاس آ، مجھے بہت کم دکھائی دیتا ہے میرے لال۔" عورت نے لرزتی آواز میں کہا۔
لفظ تو سن کر ہی میں سمجھ گیا کہ درحقیقت وہ میری آیا ہے۔ خوشی کے مارے کپکپاتا ہوا میں اس کے پاس پہنچا۔ میری شکل خوب غور سے دیکھنے کے بعد اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔
"میرے چاند! میں نے تجھ پر کتنے ظلم ڈھائے ہیں۔ ہائے، میں بھی کتنی کمبخت ہوں کہ تجھے پال نہ سکی۔ مجھ نصیبوں جلی نے تجھے یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ مگر بیٹے اللہ گواہ ہے کہ میرے پاس کھانے کے لئے ایک دانہ بھی نہ تھا۔ تو میرے پاس رہتا تو فاقوں سے مر جاتا میرے بچے۔۔۔!"
اتنا کہہ کر وہ پھر رونے لگی۔ میں خود بھی اس سے لپٹ کر رو رہا تھا۔ جب ہم دونوں کے دلوں کا بوجھ ہلکا ہوا تو جان نے عورت سے کہا۔
"اماں۔۔۔ اب تو تم نے پہچان لیا کہ یہ فیروز ہے۔ تم راستے میں کہتی تھیں کہ اس کے سینے پر ایک کالا داغ ہے، میں دیکھ چکا ہوں کہ وہ داغ واقعی اس کے سینے پر ہے۔ فیروز تم انہیں وہ داغ بھی دکھا دو۔"
میں نے سینہ کھول کر آیا کو وہ داغ دکھایا تو وہ پھر مجھ سے لپٹ کر رونے لگی۔ جان کے بار بار یہ کہنے پر کہ وہ میرے والد کے بارے میں بتائے، بڑھیا نے کہنا شروع کیا:
"فیروز کسی معمولی خاندان سے نہیں ہے صاحب، بلکہ اس کی رگوں میں نوابی خون دوڑ رہا ہے۔ اس کے دادا نواب تھے اور کلکتہ میں ان کی بہت بڑی جائداد تھی۔ اس کے والد بہت پڑھے لکھے آدمی تھے انہوں نے امریکہ میں ڈاکٹری کی تعلیم پائی تھی اور بڑے عرصے کے بعد بمبئی لوٹے تھے۔ بمبئی ہی میں ان کی شادی ایک بوہرے سیٹھ کی لڑکی سے ہوئی۔ شادی کے بعد ہی جنگ شروع ہو گئی۔ اس کے والد بہت بڑے سرجن تھے اس لئے انہیں بھی لڑائی پر جانا پڑا۔ تب ہی فیروز پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش کے دو مہینے کے بعد اس کی ماں ایک بیماری میں مر گئی۔ اور ننھے فیروز کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گئی۔ تب میں نے اسے پالا پوسا اس کے والد صرف دو بار اسے دیکھنے آئے تھے، اور پھر ان کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گئے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ جنگ میں کام آ گئے ہوں گے۔"
یہ خبر سن کے میرے دل کو ایک دھچکا لگا۔ مگر یہ انکشاف میرے لئے خوشی کا باعث تھا کہ میں ایک اعلی خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ بڑھیا نے سانس لے کر پھر کہنا شروع کیا۔
"میں اتنی بے وقوف تھی کہ میں نے قانون کی مدد لئے بغیر فیروز کو گھبرا کر یتیم خانے میں داخل کرا دیا۔ میں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ ایک بہت بڑی جائداد کا مالک ہے اور اسے یتیم خانے میں داخل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، میں تو بس اپنی غریبی سے عاجز تھی۔ پریشان تھی اسی لئے یہ عجیب کام کر بیٹھی۔"
"مگر اماں، فیروز کے والد کا نام کیا تھا۔ یہ تم نے نہیں بتایا؟"
"کرنل پرویز تھا ان کا نام۔ وہ بہت خوب صورت اور بہادر ۔۔۔"
"کرنل پرویز۔۔۔!" جان نے چونک کر کہا:
"اور تم نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی تھی؟"
"جی ہاں۔ میں کیا بتاؤں کتنے اچھے آدمی تھے وہ۔"
"فیروز۔۔۔۔!" جان نے اپنے دونوں ہاتھ میری طرف پھیلاتے ہوئے کہا :
"فیروز میرے بچے، تمہارے نقلی چچا تو تمہیں بہت سے ملے مگر اب اپنے اصلی چچا سے بھی مل لو۔"
"کیا مطلب یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟" میں نے تعجب سے کہا۔
"کاش مجھے پہلے سے معلوم ہوتا! مگر خدا کی مرضی بھی یہی تھی۔ میرے بیٹے، تمہارے والد کو میں نے اچھی طرح دیکھا ہے۔ کیوں کہ وہ میرے ساتھ ہی کالج میں پڑھتے رہے ہیں۔ آؤ میرے سینے سے لگ جاؤ۔"
میں حیرت سے ایک ایک کو دیکھ رہا تھا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا قصہ ہے۔ جان نے مجھے گلے لگانے کے بعد سب باتیں تفصیل سے بتائیں۔۔۔
والد صاحب کے بارے میں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات تک مجھے بتائی۔ اس نے بتایا کہ والد کافی عرصے تک واشنگٹن کے ایک کالج میں اس کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے تھے اور دونوں بہت ہی اچھے دوست تھے۔ جان نے مجھ سے وعدہ کیا کہ اس کے پاس والد کی جو تصویریں ہیں ان میں سے بہت سی وہ مجھے بھیج دے گا۔ آخر میں اس نے کہا:
"مجھے فخر ہے فیروز کہ تم ایک بہت اچھے خاندان سے ہو۔ پہلے تمہاری باتیں سن سن کر میں حیرت کیا کرتا تھا کہ ایک معمولی سا لڑکا آخر کس طرح ایسی عقل مندی کی باتیں کر سکتا ہے! مگر مجھے اب کوئی حیرت نہیں ہے۔ تم اس باپ کے بیٹے ہو جو کالج میں ہمیشہ اول آیا کرتا تھا، جو بے حد بہادر اور ذہین تھا اور اس کی یہ ذہانت اور بہادری ہی تمہارے اندر پائی جاتی ہے۔"
یہ ہے وہ عجیب و غریب داستان جسے پڑھتے ہوئے کئی بار آپ نے اپنے دل میں کہا ہوگا کہ یہ نا ممکن ہے۔۔۔!
مگر یہ حقیقت ہے اور مجھ پر بیتی ہے۔ ان واقعات کو بیتے ہوئے اب عرصہ ہو گیا ہے۔ اس وقت میں اپنے عالیشان کمرے میں بیٹھا ہوا یہ کہانی لکھ رہا ہوں۔ میری بیوی دوسرے کمرے میں بیٹھی ہوئی میری ننھی سی بچی کے لئے اونی سوئٹر بن رہی ہے۔۔۔ میرے دادا اور میرے والد کی جتنی بھی جائداد تھی اس کا اب میں تنہا مالک ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میری اپنی ایک جہاز کمپنی بھی ہے، میرے جہاز دور دراز کے ملکوں میں آتے جاتے ہیں۔ یہی اب میرا کاروبار ہے اور خدا کا شکر ہے کہ میری ایمان داری کی بدولت یہ کام خوب چل رہا ہے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں مجھے یہ عزت صرف اس وجہ سے ملی ہے کہ میں ہمیشہ دوسروں کا وفادار رہا۔ میں نے کبھی لالچ اور بے ایمانی نہیں کی۔
جان کے بارے میں مجھے اتنا اور بتانا ہے کہ مکھی کی آنکھیں حفاظت سے بند کر کے وہ انہیں اپنے ساتھ امریکہ لے گیا۔ رہے جیک اور ملاح، تو جیک تو جان کے ساتھ ہی امریکہ چلا گیا تھا۔ ملاح جس کا نام کرشنا سوامی ہے، اب میرے ساتھ ہی ہے اور میرے کام کو چلاتا ہے، ایک طرح سے وہ میرے کام میں میرا سب سے بڑا مددگار بنا ہوا ہے۔
جان آج کل واشنگٹن میں اندھے بچوں اور بیواؤں کا ایک اسکول چلا رہا ہے۔ اس خوف ناک مکھی کی آنکھوں کی مدد سے اس نے بہتیرے بچوں کی آنکھوں کو روشنی عطا کی ہے، اور ہزاروں بیواؤں کی مالی امداد بھی کی ہے۔ اب بھی اس کے خط میرے پاس آتے رہتے ہیں اور ان خطوں کو پڑھ کر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں صرف مجھ سے، میری بیوی زرینہ اور بچی نجمہ سے محبت کرتا ہے۔ کئی بار وہ بذریعہ ہوائی جہاز امریکہ سے بمبئی آیا اور مجھ سے مل کر گیا۔ اس سے بچھڑتے وقت مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنے حقیقی باپ سے جدا ہو رہا ہوں!
ایک خوش خبری اور سنئے۔ چند دن پہلے ہی مجھے جان کا خط ملا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ اس نے اپنی تمام دولت میری ننھی نجمہ کے نام لکھ دی ہے۔ میرے نام اس لئے نہیں لکھی کہ اب اسے مجھ سے زیادہ میری بچی نجمہ پیاری ہے۔
مجھے اب دنیا میں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ میری محنت، ہمت اور وفاداری نے مجھے وہ کچھ دے دیا جو شاید کسی شہنشاہ کو بھی نہ ملا ہوگا۔ دولت، عزت، شہرت اور دنیا بھر کے عیش و آرام۔۔۔ مجھ سے زیادہ خوش نصیب شاید ہی اس دنیا میں کوئی ہو!
میرے حیرت انگیز، خوفناک اور طویل سفر نے مجھے یہی سبق دیا ہے کہ اگر ہم مصیبتوں سے نہ گبھرائیں، ہر حال میں خدا سے لو لگائے رکھیں، ڈر اور خوف کو دل کے قریب بھی نہ آنے دیں۔ ہمت، ایمان داری اور محنت سے ہر کام کریں تو خدا ہماری مدد ضرور کرے گا اور ہم ایک ایسے درجے پر پہنچ جائیں گے کہ دنیا رشک کرے گی۔ میری مثال آپ کے سامنے موجود ہے۔
اچھا اب اجازت چاہوں گا۔ دوسرے کمرے سے زرینہ مجھے سوئٹر کا نمونہ پسند کرنے کے لئے بلا رہی ہے اور میں دو گھنٹے سے یہی کہہ رہا ہوں کہ بس ایک منٹ میں آیا۔
اب چلتا ہوں، خدا حافظ!
(ختم شد !!)